حفیظ تائب
یوں لبوں پر ہے مرے حمدِ الٰہی کا بیاں
کاہ کے دوش پہ ہو جیسے کوئی کوہِ گراں
اس کی قدرت کے مظاہر مہ و مہر و مریخ
بحر و بر، دشت و جبل اس کی جلالت کے نشاں
بے ستوں اس نے ہی کی سقفِ سماء استادہ
سبزہ و گل سے بھرا اس نے زمیں کا داماں
اس کے ایما پہ ہی ذرّوں میں توانائی ہے
اس کے ہی اذن سے ہے زیست کراں تا بہ کراں
نہ کوئی اس کے سوا حشر کے دن کا مالک
نہ کوئی اس کے سوا دہر میں مختارِ اماں
وہ کسی سے بھی نہیں اور نہ کوئی اس سے
پھر بھی رکھتا ہے ہر اک شخص سے وہ رشتۂ جاں
اس نے بخشا ہے اسے اپنی نیابت کا شرف
اس کے احسان بھلا سکتا ہے کیسے انساں
منکروں کا بھی وہی رزق رساں ہے ’’تائب‘‘
بے نیازی ہے حقیقت میں اسی کے شایاں
0 تبصرے