زباں پر نہ کیونکر ترا شکر آئے کہ احساں ہیں تیرے ہزاروں خدا یا

زباں پر نہ کیونکر ترا شکر آئے کہ احساں ہیں تیرے ہزاروں خدا یا

تلوک چند محرومؔ


زباں پر نہ کیونکر ترا شکر آئے
کہ احساں ہیں تیرے ہزاروں خدا یا


مجھے تونے دی زندگانی سی نعمت
عطا عقل کی اور انساں بنایا


بجز تیرے کس کے بنائے سے بنتی
یہ کل جسم کی جس کو تونے چلایا


کیا میہماں روح کو تن کے گھر میں
کرشمہ یہ حکمت کا تونے دکھایا


یہ قدرت ہے تیری یہ صنعت ہے تیری
کہ مٹی کو دانا و بینا بنایا


محبت سے دل کو کیا شاد میرے
دیا سر پہ ماں باپ کا تونے سایہ
دیئے مجھ کو بھائی بہن پیارے پیارے
محبت کا ہر سمت دریا بہایا


کرم سے ترے کھیتیاں لہلہائیں
نمی اور حرارت میں ان کو پکایا


سمندر، جزیرے، پہاڑ اور دریا
جو منظر دکھایا سو دلکش دکھایا


چمک چاند، سورج کو تونے عطا کی
ستاروں نے تجھ سے ہی یہ نور پایا


ستاروں کو جگمگ سرِ آسماں دی
تو پھولوں کو فرشِ زمیں پر کھلایا


رہا گرچہ آنکھوں سے پنہاں ہی پنہاں
نظر اپنی قدرت سے تو ہم کو آیا

تری یاد سے دل نہ غافل ہو میرا
دعا تجھ سے محرومؔ کی ہے خدا یا

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے