ؔضمیرؔ یوسف
دامن کہسار کو پھولوں سے بھر دیتا ہے کون
برگِ گل کو حسن، شاخوں کو ثمر دیتا ہے کون
بخشتا ہے کون گلشن کے گلوں کو تازگی
اور کلیوں کو تبسم کا ہنر دیتا ہے کون
ہے ستاروں میں چمک کس کی، قمر میں روشنی
تیرگی شب کو پیغام سحر دیتا ہے کون
کس کی رحمت سے بشر ہوتا ہے منزل آشنا
مشکلوں میں راستہ آسان کر دیتا ہے کون
راستے مسدود کردیتی ہیں جب محرومیاں
ناتوانوں کے دلوں میں جوش بھر دیتا ہے کون
کس کے آگے سر بہ سجدہ ہے شعور و آگہی
ذہن کو فکرِ حسیں، ذوقِ نظر دیتا ہے کون
کون ظالم کو ڈبو دیتا ہے موجِ نیل میں
آگ کے شعلوں کو بھی گلزار کردیتا ہے کون
خالقِ ارض و سما کے ماسوا کوئی ضمیر!
دامنِ مفلس کو بحشش کے گہر دیتا ہے کون
0 تبصرے