ہر رنگ نرالا دے، ہر روپ نمایاں دے یارب مرے گلشن کو وہ لطف بہاراں دے

ہر رنگ نرالا دے، ہر روپ نمایاں دے یارب مرے گلشن کو وہ لطف بہاراں دے

عطاؔ عابدی


ہر رنگ نرالا دے، ہر روپ نمایاں دے
یارب مرے گلشن کو وہ لطف بہاراں دے


تو زخم سے واقف ہے تو درد سمجھتا ہے
اس زخم کا مرہم دے اس درد کا درماں دے


دنیا کے جو طالب ہیں تو ان سے بچا مجھ کو
جو تجھ سے ملاپائے وہ صحبت انساں دے


ہر خوف نکل جائے دل سے مرے دنیا کا
بس ایک تیرا ڈر ہو وہ قوت ایماں دے


عصیاں سے بھرا دامن دھل جائے مرا جس سے
وہ ابر کرم دے اور وہ بارش احساں دے


جینے کی امنگیں ہوں، پرنور ترنگیں ہوں
اس بزم عطاؔ کو تو وہ شمع فروزاں دے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے