میں ظلمتوں میں بھٹک رہا ہوں مرے خدا مجھ کو نور دیدے

میں ظلمتوں میں بھٹک رہا ہوں مرے خدا مجھ کو نور دیدے

ڈاکٹر محبوب راہیؔ


میں ظلمتوں میں بھٹک رہا ہوں مرے خدا مجھ کو نور دیدے
بصیرت زندگی عطا کر کچھ عاقبت کا شعور دیدے
وہ خاکساری کا ایک مفہوم،خاک بسری ہی لے رہا ہے
اسے ذرا سرکشی دکھا دے، اسے ذرا سا غرور دیدے
نہ جس کو احساس کی حرارت نہ کوئی جذبے کی جس میں شدت
کچھ اس کو سوز دروں عطا کر کچھ اس کو طبع غیور دیدے
حقیر ہوں میں، فقیر ہوں میں، کہ خواہشوں کا اسیر ہوں میں
رہائی قید ہوس سے مجھ کو، مرے خدائے غفور دیدے
مجھے ترے ضرب کے علاوہ طلب نہیں ہے کوئی خدایا
کسی کو حور و قصور دیدے کسی کو جام طہور دیدے
شعور میں علم و آگہی میں، یہ خوب آگے نکل چکا ہے
نئے زمانے کے آدمی کو کچھ آدمیت ضرور دیدے
ترا ہے محتاج تیرا راہیؔ، کرم اس پر بھی یا الٰہی!
خیال کو اس کے بانکپن دے، بساط فن پر عبور دیدے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے