ڈاکٹر محمد حسن قادری ایم۔اے
(Urdu,Political Science,Sociology)
SahityaRatan,Phd..Zkhira.Bareilly
بلال رازؔ بریلوی اور ان کی نعتیہ شاعری
ن ع ت عربی زبان کا مادّہ ہے۔اس کے لغوی معنی کسی شخص میں بہترین صفات کا پایا جاناہے اور اُن صفات کا بیان کرنا ہے۔ عربی زبان میں تعریف و توصیف کے لیے حمد، مدح، ثنا وغیرہ الفاظ بھی استعمال کئے جاتے ہیں مگر علماء اور اہل ادب نے اصطلاحاً لفظ حمد کو اللہ کی تعریف کے لئے اورلفظ نعت کوسرورِ کون و مکاں ،محبوب رب العالمین کی تعریف و توصیف کے لئے مخصوص کر لیا ہے۔دنیا کی دیگر زبانوں میںبھی سرورِ کونین کی تعریف و توصیف کے لئے نعت کا ہی ستعمال ہوتا ہے۔
رسول اکرم ؐ کی نعت مبارک نظم و نثر دونوں اقسامِ ادب میں لکھی جاتی رہی ہیں مگر عام طور پر نعت کا لفظ ان نظموں کے لئے استعمال ہوتا ہے جو قاسمِ نعت کے لئے لکھی اور کہی گئیں ہوں۔اس صنفِ سخن کی ابتدا عربی زبان میں عہدِ نبوت میں ہی ہو گئی تھی وہ تمام صحابۂ کرام نے جو شعر کہے ہیں وہ نعتیہ اشعار ہیں۔حضرت حسان بن ثابتؓ،حضرت کعب بن مالکؓ،حضرت کعب بن زبیر مکی رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین وغیرہ عربی کے مشہور نعتیہ شاعر ہوئے ہیں۔ عربی زبان کے بعد فارسی زبان میںبھی نعت گوئی کا رواج عام ہوا ۔ابو الفرج رونی ،سعدی ،رومی، جامی، عرفی، شیرازی وغیرہ نے بہترین نعتیں عطا کیں۔دیگر زبانوں میں بھی نعت گوئی کی روایت ملتی ہے ۔اردو شاعری غزل، مثنوی ،قصیدہ، منقبت، مرثیہ وغیرہ اصناف سخن سے مالا مال ہے۔ حالی،شبلی، امیر مینائی، محسن کاکوری وغیرہ شعرا نے کچھ نعتیں کہی ہیں لیکن دورِ متاخرین میں نعت گوئی میں امام احمد رضا بریلوی رحمتہ اللہ اور حافظ پیلی بھیتی کے علاوہ ایسا کوئی شاعر نہیں ملتا جس نے صرف نعتیہ اشعار سے اپنے دیوان مرتب کئے ہوں۔ ہمارے خیال میں اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔
اول یہ کہ صنفِ نعت بہت نازک صنف ہے بقول اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمتہ اللہ ’’اس میں افراط و تفریط کی گنجائش نہیں۔ اگر حد سے بڑھتا ہے تو اُلوہیت میں پہنچ جاتا ہے اور کمی کرتا ہے تو تنقیص ہوتی ہے‘‘۔(الملفوظ)
اس لئے نعت کہنا بہت مشکل کام ہے ،اس مشکل کام سے وہی شاعر
عہدہ برآ ہو سکتا ہے جو مہارت ِ فن کے ساتھ ساتھ ایک سچے عاشقِ رسول کا دل رکھتا ہو ۔سرور کون و مکاں کی محبت میں دل گداختہ ہو جانا مرد مومن کی شان ہے۔ یہی وجہ ہے ہر شاعر اس فن میں طبع آزمائی نہ کر سکا صرف رسماً دو چار نعتیں کہہ دیں جن
رسول اکرم ؐ کی نعت مبارک نظم و نثر دونوں اقسامِ ادب میں لکھی جاتی رہی ہیں مگر عام طور پر نعت کا لفظ ان نظموں کے لئے استعمال ہوتا ہے جو قاسمِ نعت کے لئے لکھی اور کہی گئیں ہوں۔اس صنفِ سخن کی ابتدا عربی زبان میں عہدِ نبوت میں ہی ہو گئی تھی وہ تمام صحابۂ کرام نے جو شعر کہے ہیں وہ نعتیہ اشعار ہیں۔حضرت حسان بن ثابتؓ،حضرت کعب بن مالکؓ،حضرت کعب بن زبیر مکی رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین وغیرہ عربی کے مشہور نعتیہ شاعر ہوئے ہیں۔ عربی زبان کے بعد فارسی زبان میںبھی نعت گوئی کا رواج عام ہوا ۔ابو الفرج رونی ،سعدی ،رومی، جامی، عرفی، شیرازی وغیرہ نے بہترین نعتیں عطا کیں۔دیگر زبانوں میں بھی نعت گوئی کی روایت ملتی ہے ۔اردو شاعری غزل، مثنوی ،قصیدہ، منقبت، مرثیہ وغیرہ اصناف سخن سے مالا مال ہے۔ حالی،شبلی، امیر مینائی، محسن کاکوری وغیرہ شعرا نے کچھ نعتیں کہی ہیں لیکن دورِ متاخرین میں نعت گوئی میں امام احمد رضا بریلوی رحمتہ اللہ اور حافظ پیلی بھیتی کے علاوہ ایسا کوئی شاعر نہیں ملتا جس نے صرف نعتیہ اشعار سے اپنے دیوان مرتب کئے ہوں۔ ہمارے خیال میں اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔
اول یہ کہ صنفِ نعت بہت نازک صنف ہے بقول اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمتہ اللہ ’’اس میں افراط و تفریط کی گنجائش نہیں۔ اگر حد سے بڑھتا ہے تو اُلوہیت میں پہنچ جاتا ہے اور کمی کرتا ہے تو تنقیص ہوتی ہے‘‘۔(الملفوظ)
اس لئے نعت کہنا بہت مشکل کام ہے ،اس مشکل کام سے وہی شاعر
عہدہ برآ ہو سکتا ہے جو مہارت ِ فن کے ساتھ ساتھ ایک سچے عاشقِ رسول کا دل رکھتا ہو ۔سرور کون و مکاں کی محبت میں دل گداختہ ہو جانا مرد مومن کی شان ہے۔ یہی وجہ ہے ہر شاعر اس فن میں طبع آزمائی نہ کر سکا صرف رسماً دو چار نعتیں کہہ دیں جن
میںوارفتگی اور عشق رسول کی وہ جلوہ گری نہیں جو امام احمد رضا اور حافظ پیلی بھیتی کے یہاں دکھائی دیتی ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ صنفِ نعت کو اردو اہل ادب نے صنفِ سخن ہی مانا، اردو ادب کی پوری تاریخ کا مطالعہ کر جائیے کہیں اردو نعت اور نعت گو شعرا کا ذکر نہیں ملے گا۔ کتنی عجیب بات ہے کہ نواسہ ٔ سرورِ کون و مکاں، راکبِ دوشِ رسول حضرات حسنین کریمین سے تعلق مرثیوں کا اردو ادب میں خوب ذکر ہے اور مرثیہ گو شعرا انیس دبیر کی شان میں اہل ادب نے زمین و آسمان کے قلابے ملادئے ہیں لیکن افسوس جو باعثِ تخلیقِ کائنات ہیں اُس ذات کی نعت ِ مقدس میں اردو ادب میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ غرض اردو نعت ابتدا ہی سے تعصب اور بے توجہی کا شکار رہی ہے ۔اردو ادب کی تاریخ مرتب کرنے والوں میں و ہ لوگ حاوی رہے ہیںجنھیں نعت اور نعت گو شعرا سے دشمنی تھی یا دلچسپی نہیں تھی۔یہی وجہ ہے کہ نعت شریف کو یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل نہیں کیا گیا ۔صرف محسن کاکوری کا نعتیہ قصیدہ نصابوں میں شامل ملتا ہے وہ بھی قصیدہ کے ضمن میں شاملِ نصاب رہا ہے۔
اس موقع پر میں اپنے پی ایچ ڈی کے استاد روہیل کھنڈ یونیورسیٹی میں اردو کے پروفیسر ڈاکٹر نواب حسین خان نظامی مرحوم کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ جب آپ ۱۹۹۱ء میں یونیورسیٹی کے نصاب کمیٹی کے کنوینر منتخب ہوئے تو آپ نے نعت کو ادبی حیثیت دلانے کے لئے ایم اے اردو کے نصاب میں نعت کو شامل کرانے کی کوششیں شروع کیں تو مخالفتوں کا ایک طوفان کھڑا ہو گیا۔لیکن حضرت نظامی صاحب کی نیک نیتی ،خلوص اور آقائے دو جہاں سے عشق الگ رہا۔ اور وہ اپنی کوشش میں کامیاب ہوئے۔ چنانچہ ۱۹۹۱ء میں آپ نے ایم اے اردو کے پہلے پرچے میں امام احمد رضا اور استادِ زمن حضرت حسن رضا خان اور اُن کی نعتوں کو شامل کرایا اور ساتویں پرچہ میں خصوصی مطالعہ کے تحت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کا نام شامل کرایا ۔یہ حضرت نظامی صاحب مرحوم کا اتنا بڑا کارنامہ ہے جس کی مثال بر صغیر ہند و پاک اور بنگلہ دیش میں نہیں ملتی۔اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے آمین۔
جب ہم بریلی کی نعتیہ شاعری کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ بریلی میں نعت گو شاعر تھے لیکن نعتیہ مشاعروں کا فقدان تھا۔ نعتیہ مشاعروں کا آغاز اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کے برادرِ اصغر حضرت علامہ حسن رضا خاں کے زمانہ
میں ان کی کوششوں سے ہوا۔اس سے قبل بریلی کے مشاعروں میں بطور ہدیہ ٔ تبریک حمد ،نعت،منقبت خوانی ہوتی تھی۔
علامہ حسن رضا خاں کے تلامذہ کی تعداد کثیر تھی ۔چنانچہ نعتیہ مشاعرہ کی ضرورت محسوس کی جانے لگی اور ان کا انعقاد بھی کیا گیا۔۱۸۵۷ء کا دور ما بعد جس کا تعلق مولانا حسن رضا خاں حسن بریلوی سے ہے۔ بریلی میںعظیم المرتبت نعت گوشعرا پر مشتمل ہے۔نواب حیدر، حسن خاں حیدر، نواب عبد الرزاق خاں، شاہ سید حسین شاہ سید، مولوی لطف علی خاںلطفؔ،سید شاہ فضلِ غوث ساقیؔ،حضور احمد خاں آثم،سید فدا علی وامق، جمیل الرحمٰن خاں جمیلؔ،وغیرہ و صاحبِ دیوان برگزیدہ شعرائے نعت ہیں جن پر جتنا بھی فخر کیا جائے کم ہے۔
اب صورتِ حال یہ ہے کہ بریلی میں شعرا حضرات کی اچھی خاصی تعداد ہے اور تقریباً سبھی شعرا نعت و منقبت کہتے ہیں ۔خانقاہوں ،درگاہوں میں محرم الحرام کے ایام میں اور دیگر مذہبی مواقع پر نعتیہ اور منقبتی مشاعرے اور نشستیں منعقد کی جاتی ہیں۔ شعرا حضرات اپنے بہترین کلام پیش کرتے ہیں اور داد و تحسین وصول کرتے ہیں۔ علامہ مولانا صغیر اختر مصباحی ، محترم اسرار نسیمی، شکیل اثر نورانی، عبد الرؤف نشتر، اسد مینائی، ڈاکٹر محمد احمد خاں امنؔ،ڈاکٹر عدنان کاشف وغیرہ ایسے شعرا ہیں جن کے دم قدم سے نعت و منقبت کی محفلیںآباد ہیں۔
جوان العمر شعرا میں راقم کے خوا ہر زادہ محمد بلال خاں ،بلال رازؔ بریلوی کو انفرادی و امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ وہ اس لئے کہ انھیں کمسنی میں ہی شاعری کا شوق پیدا ہو گیا تھا ،شاعری کی ابتدا غزلوں سے کی بعد میں نعتیہ شاعری کا شوق پیدا ہوا اور نعتیں بھی کہنے لگے اور خوب کہتے ہیں۔ کمسنی میں ہی اتنی کثیر تعداد میں نعتیں کہی ہیں جس کی مثال نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔بلال رازؔ ۱۳؍ ۱۴؍ سال کے ہی تھے کہ شعر کہنا شروع کردیا تھا ۔وقت کے ساتھ ساتھ شوق پروان چڑھتا گیا اور ۱۶؍ سال کی عمر میں باقاعدہ شاعری شروع کردی یعنی مشاعروں میں بھی شرکت کرنے لگے۔ بلال راز کی ولادت ۵؍ اپریل ۱۹۹۴ء کو بریلی شریف کے محلہ کانکر ٹولہ پرانا شہر کے پٹھان خاندان کے معزز ،علمی، دینی و مذہبی گھرانے میں ہوئی ۔والد محمد اسلم خاں صاحب نیک اور شریف النفس شخصیت ہیں۔ دادا حضرت شاہ عبد الرزاق علیہ الرحمہ عابد شب بیدار ،تقویٰ شعار، اور صاحب کشف و کرامت ولی کامل تھے۔ ترک و تجرید کی زندگی بسر کرتے تھے۔دنیا سے استغنا آپ کا شیوہ تھا۔آپ کے عقیدت مندوں کی ایک کثیر تعداد ہے۔ شاہ دانہ پر آپ کا مزار مرجعِ خلائق ہے۔
بلال رازؔ نے جس عمر میں شعر کہنا شروع کیا وہ حصولِ تعلیم کا دور تھا۔پہلے ایم کم کیا پھر اردو میں ایم اے کیا ۔تعلیم کے حصول کے ساتھ ہی فکرِ معاش اور تلاشِ روزگار میں بھی سرگرداں رہے اور شعری سفر بھی جاری رکھا۔ یہ تینوں کام ایک ساتھ انجام دینا بہت مشکل کام تھا۔ لیکن رازؔ کے عزمِ مصمم نے اس مشکل کو آسان کر دکھایا۔ رازؔ کو شعرگوئی کا شوق کیسے پیدا ہوا یہ بھی ایک راز ہی ہے۔ جب کہ ان کی ددھیال اور ننھیال میں کوئی شاعر نہیں ہوا۔اس سلسلے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ ودیعت خداوندی ہے‘ جو ہر شخص کو نصیب نہیں ہوتی۔در اصل بلال رازؔکو شاعری سے فطری لگاؤ ہے
اور طبیعت بھی موزوں ہے۔اشعار نظم کرنے کی صلاحیت بچپن ہی سے حاصل ہے ۔مولوی الطاف حسین حالی ’’مقدمہ شعروشاعری‘‘ میں لکھتے ہیں شاعر بننے کے لئے صرف موزوں طبع ہونا ضروری ہے ۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بلال رازؔمیں شاعر بننے کی ساری صلاحیتیں اور خوبیاں پائی جاتی ہیں۔اس پر مستزادیہ کہ حضرت اسرار نسیمی جیسا لائق وفائق، کہنہ مشق شاعر ،مخلص و شفیق استاد ملا۔ جنھوں نے رازؔکے فن شاعری کو جلا بخشی اور بام عروج تک پہنچایا۔ماشا ء اللہ کلام اچھا ہے۔آواز بھی خوبصورت پائی ہے۔اس لئے بہت جلد شہرت کی بلندیوں کو چھو لیا ۔مشاعروں میں خوب داد و تحسین وصول کرتے ہیں ۔ریڈیو اور دوردرشن پر بھی شعر پڑھنے کے لئے بلائے جاتے ہیں اور ملک کے اخبار و رسائل میں بھی کلام شائع ہوتا رہتا ہے۔
بلال رازؔ قابل مبارک باد اور لائقِ تحسین ہیں جنھوں نے کم عمری میں ہی کثیر تعداد میں نعت کہی ہیں ورنہ عموماً شعرا حضرات چار چھ نعت کہہ لیتے ہیں اور وہی مشاعروں میں سناتے رہتے ہیں ۔در اصل نعت گوئی کے لئے سرورِ کون و مکاں سے عشق و محبت شرط اول ہے۔ رازؔ کی نعت گوئی آدابِ عشق و محبت کی آئینہ دار ہے ۔ اُن کی محبت نہ صرف ہر چیز سے بلند و بالا ہے بلکہ والہانہ عشق و محبت اور جاں نثاری سے پُر ہے۔بلال رازؔ کو جذبۂ عشقِ رسول اپنے جد امجد علیہ الرحمہ سے وراثت میں ملا ہے جو عاشق صادق تھے اور جن کا سینہ عشقِ رسول کا مدینہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ رازؔ کا کلام عشق و مستی اور درد و سوز سے مالا مال ہے۔ سلاست،سادگی، بے ساختگی اور روانی رازؔ کے کلام کی خصوصیات ہیں۔
رازؔ کے کلام میں عشق پاک باز، جذبۂ خود سپردگی، وارفتگی و شیفتگی اور خلوص بدرجہ اتم موجود ہے۔ رازؔ اگر ایک طرف عظمتِ رسالت، اظہار معصیت ، التجائے مغفرت اور احساسِ ندامت جیسے حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی شاعری کا حق ادا کرتے ہیں تو دوسری طرف فصاحت،بلاغت اور لطیف طرزِ اسلوب پر بھی توجہ دیتے ہیں۔یہ آسان کام نہیں ہے مگر کچھ کر گزر جانے کے ایمانی حوصلے نے رازؔ کو ہر اعتبار سے سُرخرو کیا۔رازؔ کا خیال ہے کہ نعت مبارک کا یہ توشہ ان کے لئے زادِ آخرت ،سرمایہ نجات بن جائے گا۔اسی لئے وہ کہتے ہیں:
اللہ مدینے میں مجھ کو قضا دینا۔مٹی میرے طیبہ کی مٹی میں ملا دینا
کچھ شعر عقیدت میںیہ رازؔنے لکھے ہیں:
اللہ جزا اس کو تو روزِ جزا دینا
آقائے کائنات کی محبت جانِ ایمان ہے اگر یہ نہیں تو انسان ایمان سے خالی ہے یعنی مسلمان ہی نہیں ہے۔اس نظریے کو رازؔ نے اس طرح نظم کیا ہے:
نہیں جس کے دل میںآقا کی محبت۔اُسے ایمان سے کیا واسطہ ہے
لاکھ پڑھ لیجئے نماز یں لاکھ حج کر لیجئے۔اُلفتِ آقا نہیں دل میںتو سب بیکار ہے
کلام میں تڑپ، یعنی خیال کے ساتھ جذبات کا شامل ہونا ضروری ہے ،اگر کلام میں تڑپ یعنی جذبات کی آمیزش نہیں تو وہ شاعر انہ خیال نہ ہوگا بلکہ حکیمانہ یا واعظانہ خیال ہوگا۔رازؔ کے کلام میں تڑپ موجود ہے ملاحظہ ہو:
مرے مولا مرے دل کو تو ایسا آئینہ کر دے
نظر آئے رُخِ سرکار دل کے آبگینے میں
الٰہی زندگی دی ہے تو دکھلادے مدینہ بھی
بھلا کیا فائدہ ہے دور رہ کر ایسے جینے میں
رضائے مصطفیٰ میں پہلے تو خود کو فناکر لے
خدا پھر تجھ سے پوچھے گا بتا تیری رضا کیا ہے
غزل ایک آزاد صنفِ سخن ہے اس میں کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہوتی ۔شاعر اپنے خیالات و جذبات اور احساسات کا اظہار بلا تکلف کھل کر کرسکتا ہے لیکن نعت ایک ایسی صنفِ سخن ہے جس میں زبردست پابندیاں ہیں ۔یہ بہت ہی دشوار فن ہے‘ قدم قدم پر خطرے ہیں اِس میں جوش کی نہیں ہوش کی ضرورت ہے۔ رازؔ نے اس راز کو محسوس کیا ،اسلئے وہ کہتے ہیں:
احتیاطوں کا تقاضا اس میں ہر اک گام ہے
نعت کے اشعار کہنا سب سے مُشکل کام ہے
یہ تو ان کا فیض ہے جو رازؔ کہہ لیتا ہے کچھ
ورنہ نعتِ مصطفیٰ کہنا بہت دشوار ہے
نعت گوئی کریں اپنے بس کا نہ تھا ہم کہاں اور کہاں مدحتِ مصطفیٰ
رازؔ ہم پہ نبی کا کرم ہو گیا ہم بھی نعتِ نبی گنگنانے لگے
نعتیہ شاعری کا ایک اہم وصف کلام میں عقیدت و محبت کے ساتھ ساتھ جدت و ندرت کا ہونا ہے۔اگر یہ نہیں تو کلام میں زور و اثر پیدا نہیں ہوتا۔رازؔ کے کلام میں یہ خوبی پائی جاتی ہے ۔چند اشعار ملاحظہ ہوں:
انہیں کا تذکرہ ہے ابتدا سے۔انہیں کا تذکرہ ہے انتہا تک
آقا کا تصرف اب خود سوچئے کیا ہوگا۔جب کام ہے کا ولیوں کا مُردوں کا جِلا دینا
بڑی عظمت ہے آقا کی ہمیں تسلیم ہے لیکن۔نبی کا آستانہ پھر نبی کا آستانہ ہے
راز ؔ کی نعتوں میں تصنع اور آورد نہیں ہے بلکہ اشعار دل کی گہرائیوں سے اُبھرے ہیں اور صفحۂ قرطاس پر موتی کی لڑی کی طرح چمک رہے ہیں۔ان میں حقیقی جذبات جلوہ گر ہیں ۔درج ذیل اشعار ملاحظہ ہوں:
رکھ لیتا ہے ہمارا بھرم آپ کا کرم
ورنہ ہمارا کون یہاں غم گُسار ہے
چوم لیتے ہیں عقیدت سے خوداک دوجے کو لب
کس قدر میٹھا محمد مصطفیٰ ؐ کا نام ہے
سمجھ میں نہیں آیا کسی کو رازؔ یہ اب تک
کہ جنت میں مدینہ ہے یا جنت ہے مدینے میں
سرکارِ کائنات ﷺ کی حدیث مبارک ہے’’اوّل ما خلق اللہ نوری‘‘اللہ نے سب سے پہلے میرا نور پیدا فرمایا ۔اس حدیث مقدس کی ترجمانی رازؔ نے بہت خوبصورتی سے اس طرح کی ہے:
نہ تھا جہان میں کچھ اُن کے نور سے پہلے۔نبی تھے دونوں جہاں کے ظہور سے پہلے
تھے کائنات سے پہلے حضور مرے مگر۔یہ کائنات نہیں تھی حضور سے پہلے
راز ؔکی شاعری قرآن و حدیث اور تہذیبی عوامل کی ترجمانی سے منور ہے اور پورا کلام عشق و محبتِ رسول سے مہکتے اشعار سے معطر ہے۔ رازؔ کا بے لوث عشقِ رسول عظمتِ حبیبِ کردار کو کس والہانہ انداز میں بیان کرتا ہے ملاحظہ فرمائیں:
وہ نعت ہی نہیں ہے بادشاہوں کے خزینے میں
جو نعمت بھیک میں ملتی ہے منگتوں کو مدینے میں
اُسے دنیا کا کوئی غم ہراساں کر نہیں سکتا
غمِ سرکارِ بطحا بس گیا ہے جس کے سینے میں
نبی کے قرب میں اس کو ٹھکانہ کاش مل جائے
الٰہی رازؔ مر کر دفن ہو جائے مدینے میں
عرش پر فرش پر لامکاں میں ذکر جاری ہے دونوںجہاں میں
ایسی کوئی جگہ ہی نہیں جس جگہ اُن کا چرچا نہ ہو
ایک سچے پکے سنی مسلمان کی سب سے بڑی اساس حُبِّ نبی ہے ،جس کا دل محبتِ رسول سے خالی ہے وہ مسلمان کہلانے کا ہی حق دار نہیں ہے۔اس کا روزہ،نماز اور حج سب بے کار ہے۔تمام فضیلتوں اور سعادتوں کی بنیاد عشقِ رسول ہی ہے۔رازؔ اس حقیقت کو یوں بیان کرتے ہیں:
دل میں گر حُبِ شہہِ بطحا نہیں
پھر ترا سجدہ کوئی سجدہ نہیں
جو نبی کے ہاتھ سے مس ہو گیا.جسم کیا کپڑا بھی وہ جلتا نہیں
سنیوں کا آپ کے گستاخ سے۔کوئی رشتہ کوئی سمجھوتہ نہیں
ایک کامیاب شاعر اپنی شاعری میں صنعتوں کا استعمال بہت خوبی اور مہارتِ فن کے ساتھ کرتا ہے۔رازؔ نے دو صنعتوں کا یعنی صنعتِ تلمیح اور صنعتِ تضاد کا استعمال بہت خوبصورتی کے ساتھ کیا ہے:
صنعتِ تلمیح
جب شاعر اپنے کلام یا کسی آیت ،حدیثِ مبارکہ ،کسی مشہور تاریخی
واقعہ یا کسی کہاوت کے طرف اشارہ کرتا ہے تو اُسے صنعتِ تلمیح کہتے ہیں۔رازؔ نے اپنی شاعری میں کثرت سے اس صنعت کا استعمال کیا ہے،ملاحظہ ہوں:
پلٹ کے آیا ہے سورج قمر ہوا ٹکڑے۔اشارے تم یہ مرے مصطفیٰ کے دیکھو تو
مسکرائے نبی تو ضیا ہو گئی۔آپ کی یہ ادا معجزہ ہو گئی
نشانی دینا تھی دنیا کو تیری قدرت کی۔وہ ڈوبا شمس پھر انا تو اک بہانا تھا
وہ چاہتا تو نہ سورج کو ڈوبنے دیتا۔مگر خدا کو تصرف ترا دکھانا تھا
مصطفیٰ شہر ِعلم و حکمت ہیں۔اور علی ان کا باب کیا کہنے
میسر ہی نہیں ہے وہ گلاب و مُشک و عنبر کو
خدا نے جو مہک رکھی ہے آقا کے پسینے میں
صنعتِ تضاد
ایک ہی شعر میں ۲؍ لفظ ایک ہی طرح کے ہوں گے مگر معنی الگ الگ ہوں۔اسے صنعتِ تضاد کہتے ہیں۔رازؔ نے اس صنعت کا استعمال بھی بڑی خوبصورتی کے ساتھ کیا ہے ،ایک شعر ملاحظہ ہو:
جب اُن پہ مرنے والا بعد مرنے کے بھی زندہ ہے
بتاؤ پھر بھلا کیوں کر نہ ہو ں میرے نبی زندہ
مصرعِ اولیٰ میں لفظ مرنے دو بار آیا ہے۔ایک بار فدا ہوجانے کے معنی میں دوسری بار موت کے لیے، یہاں شعر میں صنعتِ تضاد ہے۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں تمام سنیوں کے امام یعنی سنیت کی علامت ہیں۔آپ عشقِ رسول کاایسا مینارہ ٔ نور ہیں جس کی ضیا پاشیوں سے تمام سنیوں کے ذہن و دل روشن ہیں۔آپ عاشقِ صادق ہیں اس لیے ہر سنی مسلمان خواہ وہ کسی بھی سلسلے سے تعلق رکھتا ہو امامِ عشق و محبت سے عقیدت رکھتا ہے۔، رازؔ خانقاہی مزاج کے ہیں‘ مئے حُبِ نبی سے سرشار ہیں ۔اسی نسبت سے اُنہیں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا سے بھی عقیدت و محبت ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے بعض نعتیہ اشعار امام احمد رضا کے نعتیہ اشعار کی ترجمانی کرتے نظر آتے ہیں۔چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
اللہ تبارک تعالیٰ واحد اور لاشریک ہے اور اس کے محبوب آقائے کون و مکاں یکتائے زمانہ ہیں ۔آپ جیسا نہ کوئی ہوا نہ ہوگا، اس کلیہ کو اعلیٰ حضرت نے اس طرح بیان کیا ہے:
ترے پایہ کا نہ پایا تجھے یک نے یک بنایا
بلال رازؔ نے امام احمد رضا کے اس شعر کی ترجمانی اس طرح کی ہے:
اُن کے جیسا کوئی بھی نہ آیا اُن کے جیسا نہ رب نے بنایا
ان کا ثانی کوئی کس طرح ہوجسم کا جن کے سایہ نہیں ہے
اعلیٰ حضرت کا شعر ہے:
وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں.تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں
بلال رازؔ نے بھی اس مفہوم کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے:
دشت کو لالہ زار کرتے ہیں ۔وہ خزاں کو بہار کرتے ہیں
اعلیٰ حضرت کی نعت کا مقطع ہے:
لیکن رضا نے ختم سخن اس پہ کر دیا ۔خالق کا بندہ خلق کا آقا کہوں تجھے
بلال رازؔ نے اس کی ترجمانی اس طرح کی ہے:
تو ہے خالق کا خلق ہے تیری۔تو خدا کا تری خدائی ہے
اعلیٰ حضرت نے اس واقعہ کی تصویر کشی اس طرح کی ہے: آقائے کائنات جب اس دنیا میں تشریف لائے تو خانۂ کعبہ کے سارے بُت ڈر و خوف سے کانپنے لگے ۔
تیری آمد تھی کہ بیت اللہ مجرے کو جھکا
تیری ہیبت تھی کہ ہر بُت تھر تھرا کے گر گیا
بلال راز نے اس شعر کی ترجمانی اس طرح کی ہے:
جب پیمبر کی دنیا میں آمد ہوئی ہر طرف چھا گئی روشنی روشنی
کعبتہُ اللہ جھکا اُن کی تعظیم کو پتھروں کے صنم تھر تھرا نے لگے
اس طرح کلامِ رازؔ میں بہت سے اشعار ہیں جن میں کلامِ رضاؔ کی ترجمانی ہے لیکن طوالت کے خوف سے سب کا ذکر ممکن نہیں۔بلال رازؔ نے سرور کون و مکاں کے اخلاق و عادات، علمِ غیب، رفعت، سر بلندی، تصرفات و اختیارات،آپ کی دستگیری و شفاعت، آپ سے عقیدت و محبت و غلامی وغیرہ تمام تشکیلی عناصر جو نعت مبارک کے لئے لازمی ہیں بڑی خوش اسلوبی اور مہارت ِ تامّہ کے ساتھ استعمال کیے ہیں۔اس کے ساتھ ہی آرزو،تمنا، مناجات ،حب نبی، سرکارِ دو عالم کا وسیلہ، اپنی عاجزی و انکساری ،عقیدہ و عقیدت وغیرہ کا ذکرکر کے سرکار سے اپنی وارفتگی و شیفتگی اور والہانہ لگاؤ کا ثبوت قدم قدم پر پیش کیا ہے۔
میں بارگاہِ الٰہی میں دعا گو ہوں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کی اس عظیم کاوش کو قبول فرماکر اسے اُن کے لیے زادِ آخرت و ذریعہ بخشش بنائے اور رازؔ کی بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں عقیدت کیشوں کے ثمرات و خیر وبرکات سے ہم سب کو حصہ عطا فرمائے اور بلا ل رازؔ کی نعتوں کی برکتوں سے قلب و نگاہ کو مجلّیٰ و مصفّیٰ کردے۔ آمین ٭٭٭
دوسری وجہ یہ ہے کہ صنفِ نعت کو اردو اہل ادب نے صنفِ سخن ہی مانا، اردو ادب کی پوری تاریخ کا مطالعہ کر جائیے کہیں اردو نعت اور نعت گو شعرا کا ذکر نہیں ملے گا۔ کتنی عجیب بات ہے کہ نواسہ ٔ سرورِ کون و مکاں، راکبِ دوشِ رسول حضرات حسنین کریمین سے تعلق مرثیوں کا اردو ادب میں خوب ذکر ہے اور مرثیہ گو شعرا انیس دبیر کی شان میں اہل ادب نے زمین و آسمان کے قلابے ملادئے ہیں لیکن افسوس جو باعثِ تخلیقِ کائنات ہیں اُس ذات کی نعت ِ مقدس میں اردو ادب میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ غرض اردو نعت ابتدا ہی سے تعصب اور بے توجہی کا شکار رہی ہے ۔اردو ادب کی تاریخ مرتب کرنے والوں میں و ہ لوگ حاوی رہے ہیںجنھیں نعت اور نعت گو شعرا سے دشمنی تھی یا دلچسپی نہیں تھی۔یہی وجہ ہے کہ نعت شریف کو یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل نہیں کیا گیا ۔صرف محسن کاکوری کا نعتیہ قصیدہ نصابوں میں شامل ملتا ہے وہ بھی قصیدہ کے ضمن میں شاملِ نصاب رہا ہے۔
اس موقع پر میں اپنے پی ایچ ڈی کے استاد روہیل کھنڈ یونیورسیٹی میں اردو کے پروفیسر ڈاکٹر نواب حسین خان نظامی مرحوم کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ جب آپ ۱۹۹۱ء میں یونیورسیٹی کے نصاب کمیٹی کے کنوینر منتخب ہوئے تو آپ نے نعت کو ادبی حیثیت دلانے کے لئے ایم اے اردو کے نصاب میں نعت کو شامل کرانے کی کوششیں شروع کیں تو مخالفتوں کا ایک طوفان کھڑا ہو گیا۔لیکن حضرت نظامی صاحب کی نیک نیتی ،خلوص اور آقائے دو جہاں سے عشق الگ رہا۔ اور وہ اپنی کوشش میں کامیاب ہوئے۔ چنانچہ ۱۹۹۱ء میں آپ نے ایم اے اردو کے پہلے پرچے میں امام احمد رضا اور استادِ زمن حضرت حسن رضا خان اور اُن کی نعتوں کو شامل کرایا اور ساتویں پرچہ میں خصوصی مطالعہ کے تحت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کا نام شامل کرایا ۔یہ حضرت نظامی صاحب مرحوم کا اتنا بڑا کارنامہ ہے جس کی مثال بر صغیر ہند و پاک اور بنگلہ دیش میں نہیں ملتی۔اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے آمین۔
جب ہم بریلی کی نعتیہ شاعری کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ بریلی میں نعت گو شاعر تھے لیکن نعتیہ مشاعروں کا فقدان تھا۔ نعتیہ مشاعروں کا آغاز اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کے برادرِ اصغر حضرت علامہ حسن رضا خاں کے زمانہ
میں ان کی کوششوں سے ہوا۔اس سے قبل بریلی کے مشاعروں میں بطور ہدیہ ٔ تبریک حمد ،نعت،منقبت خوانی ہوتی تھی۔
علامہ حسن رضا خاں کے تلامذہ کی تعداد کثیر تھی ۔چنانچہ نعتیہ مشاعرہ کی ضرورت محسوس کی جانے لگی اور ان کا انعقاد بھی کیا گیا۔۱۸۵۷ء کا دور ما بعد جس کا تعلق مولانا حسن رضا خاں حسن بریلوی سے ہے۔ بریلی میںعظیم المرتبت نعت گوشعرا پر مشتمل ہے۔نواب حیدر، حسن خاں حیدر، نواب عبد الرزاق خاں، شاہ سید حسین شاہ سید، مولوی لطف علی خاںلطفؔ،سید شاہ فضلِ غوث ساقیؔ،حضور احمد خاں آثم،سید فدا علی وامق، جمیل الرحمٰن خاں جمیلؔ،وغیرہ و صاحبِ دیوان برگزیدہ شعرائے نعت ہیں جن پر جتنا بھی فخر کیا جائے کم ہے۔
اب صورتِ حال یہ ہے کہ بریلی میں شعرا حضرات کی اچھی خاصی تعداد ہے اور تقریباً سبھی شعرا نعت و منقبت کہتے ہیں ۔خانقاہوں ،درگاہوں میں محرم الحرام کے ایام میں اور دیگر مذہبی مواقع پر نعتیہ اور منقبتی مشاعرے اور نشستیں منعقد کی جاتی ہیں۔ شعرا حضرات اپنے بہترین کلام پیش کرتے ہیں اور داد و تحسین وصول کرتے ہیں۔ علامہ مولانا صغیر اختر مصباحی ، محترم اسرار نسیمی، شکیل اثر نورانی، عبد الرؤف نشتر، اسد مینائی، ڈاکٹر محمد احمد خاں امنؔ،ڈاکٹر عدنان کاشف وغیرہ ایسے شعرا ہیں جن کے دم قدم سے نعت و منقبت کی محفلیںآباد ہیں۔
جوان العمر شعرا میں راقم کے خوا ہر زادہ محمد بلال خاں ،بلال رازؔ بریلوی کو انفرادی و امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ وہ اس لئے کہ انھیں کمسنی میں ہی شاعری کا شوق پیدا ہو گیا تھا ،شاعری کی ابتدا غزلوں سے کی بعد میں نعتیہ شاعری کا شوق پیدا ہوا اور نعتیں بھی کہنے لگے اور خوب کہتے ہیں۔ کمسنی میں ہی اتنی کثیر تعداد میں نعتیں کہی ہیں جس کی مثال نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔بلال رازؔ ۱۳؍ ۱۴؍ سال کے ہی تھے کہ شعر کہنا شروع کردیا تھا ۔وقت کے ساتھ ساتھ شوق پروان چڑھتا گیا اور ۱۶؍ سال کی عمر میں باقاعدہ شاعری شروع کردی یعنی مشاعروں میں بھی شرکت کرنے لگے۔ بلال راز کی ولادت ۵؍ اپریل ۱۹۹۴ء کو بریلی شریف کے محلہ کانکر ٹولہ پرانا شہر کے پٹھان خاندان کے معزز ،علمی، دینی و مذہبی گھرانے میں ہوئی ۔والد محمد اسلم خاں صاحب نیک اور شریف النفس شخصیت ہیں۔ دادا حضرت شاہ عبد الرزاق علیہ الرحمہ عابد شب بیدار ،تقویٰ شعار، اور صاحب کشف و کرامت ولی کامل تھے۔ ترک و تجرید کی زندگی بسر کرتے تھے۔دنیا سے استغنا آپ کا شیوہ تھا۔آپ کے عقیدت مندوں کی ایک کثیر تعداد ہے۔ شاہ دانہ پر آپ کا مزار مرجعِ خلائق ہے۔
بلال رازؔ نے جس عمر میں شعر کہنا شروع کیا وہ حصولِ تعلیم کا دور تھا۔پہلے ایم کم کیا پھر اردو میں ایم اے کیا ۔تعلیم کے حصول کے ساتھ ہی فکرِ معاش اور تلاشِ روزگار میں بھی سرگرداں رہے اور شعری سفر بھی جاری رکھا۔ یہ تینوں کام ایک ساتھ انجام دینا بہت مشکل کام تھا۔ لیکن رازؔ کے عزمِ مصمم نے اس مشکل کو آسان کر دکھایا۔ رازؔ کو شعرگوئی کا شوق کیسے پیدا ہوا یہ بھی ایک راز ہی ہے۔ جب کہ ان کی ددھیال اور ننھیال میں کوئی شاعر نہیں ہوا۔اس سلسلے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ ودیعت خداوندی ہے‘ جو ہر شخص کو نصیب نہیں ہوتی۔در اصل بلال رازؔکو شاعری سے فطری لگاؤ ہے
اور طبیعت بھی موزوں ہے۔اشعار نظم کرنے کی صلاحیت بچپن ہی سے حاصل ہے ۔مولوی الطاف حسین حالی ’’مقدمہ شعروشاعری‘‘ میں لکھتے ہیں شاعر بننے کے لئے صرف موزوں طبع ہونا ضروری ہے ۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بلال رازؔمیں شاعر بننے کی ساری صلاحیتیں اور خوبیاں پائی جاتی ہیں۔اس پر مستزادیہ کہ حضرت اسرار نسیمی جیسا لائق وفائق، کہنہ مشق شاعر ،مخلص و شفیق استاد ملا۔ جنھوں نے رازؔکے فن شاعری کو جلا بخشی اور بام عروج تک پہنچایا۔ماشا ء اللہ کلام اچھا ہے۔آواز بھی خوبصورت پائی ہے۔اس لئے بہت جلد شہرت کی بلندیوں کو چھو لیا ۔مشاعروں میں خوب داد و تحسین وصول کرتے ہیں ۔ریڈیو اور دوردرشن پر بھی شعر پڑھنے کے لئے بلائے جاتے ہیں اور ملک کے اخبار و رسائل میں بھی کلام شائع ہوتا رہتا ہے۔
بلال رازؔ قابل مبارک باد اور لائقِ تحسین ہیں جنھوں نے کم عمری میں ہی کثیر تعداد میں نعت کہی ہیں ورنہ عموماً شعرا حضرات چار چھ نعت کہہ لیتے ہیں اور وہی مشاعروں میں سناتے رہتے ہیں ۔در اصل نعت گوئی کے لئے سرورِ کون و مکاں سے عشق و محبت شرط اول ہے۔ رازؔ کی نعت گوئی آدابِ عشق و محبت کی آئینہ دار ہے ۔ اُن کی محبت نہ صرف ہر چیز سے بلند و بالا ہے بلکہ والہانہ عشق و محبت اور جاں نثاری سے پُر ہے۔بلال رازؔ کو جذبۂ عشقِ رسول اپنے جد امجد علیہ الرحمہ سے وراثت میں ملا ہے جو عاشق صادق تھے اور جن کا سینہ عشقِ رسول کا مدینہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ رازؔ کا کلام عشق و مستی اور درد و سوز سے مالا مال ہے۔ سلاست،سادگی، بے ساختگی اور روانی رازؔ کے کلام کی خصوصیات ہیں۔
رازؔ کے کلام میں عشق پاک باز، جذبۂ خود سپردگی، وارفتگی و شیفتگی اور خلوص بدرجہ اتم موجود ہے۔ رازؔ اگر ایک طرف عظمتِ رسالت، اظہار معصیت ، التجائے مغفرت اور احساسِ ندامت جیسے حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی شاعری کا حق ادا کرتے ہیں تو دوسری طرف فصاحت،بلاغت اور لطیف طرزِ اسلوب پر بھی توجہ دیتے ہیں۔یہ آسان کام نہیں ہے مگر کچھ کر گزر جانے کے ایمانی حوصلے نے رازؔ کو ہر اعتبار سے سُرخرو کیا۔رازؔ کا خیال ہے کہ نعت مبارک کا یہ توشہ ان کے لئے زادِ آخرت ،سرمایہ نجات بن جائے گا۔اسی لئے وہ کہتے ہیں:
اللہ مدینے میں مجھ کو قضا دینا۔مٹی میرے طیبہ کی مٹی میں ملا دینا
کچھ شعر عقیدت میںیہ رازؔنے لکھے ہیں:
اللہ جزا اس کو تو روزِ جزا دینا
آقائے کائنات کی محبت جانِ ایمان ہے اگر یہ نہیں تو انسان ایمان سے خالی ہے یعنی مسلمان ہی نہیں ہے۔اس نظریے کو رازؔ نے اس طرح نظم کیا ہے:
نہیں جس کے دل میںآقا کی محبت۔اُسے ایمان سے کیا واسطہ ہے
لاکھ پڑھ لیجئے نماز یں لاکھ حج کر لیجئے۔اُلفتِ آقا نہیں دل میںتو سب بیکار ہے
کلام میں تڑپ، یعنی خیال کے ساتھ جذبات کا شامل ہونا ضروری ہے ،اگر کلام میں تڑپ یعنی جذبات کی آمیزش نہیں تو وہ شاعر انہ خیال نہ ہوگا بلکہ حکیمانہ یا واعظانہ خیال ہوگا۔رازؔ کے کلام میں تڑپ موجود ہے ملاحظہ ہو:
مرے مولا مرے دل کو تو ایسا آئینہ کر دے
نظر آئے رُخِ سرکار دل کے آبگینے میں
الٰہی زندگی دی ہے تو دکھلادے مدینہ بھی
بھلا کیا فائدہ ہے دور رہ کر ایسے جینے میں
رضائے مصطفیٰ میں پہلے تو خود کو فناکر لے
خدا پھر تجھ سے پوچھے گا بتا تیری رضا کیا ہے
غزل ایک آزاد صنفِ سخن ہے اس میں کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہوتی ۔شاعر اپنے خیالات و جذبات اور احساسات کا اظہار بلا تکلف کھل کر کرسکتا ہے لیکن نعت ایک ایسی صنفِ سخن ہے جس میں زبردست پابندیاں ہیں ۔یہ بہت ہی دشوار فن ہے‘ قدم قدم پر خطرے ہیں اِس میں جوش کی نہیں ہوش کی ضرورت ہے۔ رازؔ نے اس راز کو محسوس کیا ،اسلئے وہ کہتے ہیں:
احتیاطوں کا تقاضا اس میں ہر اک گام ہے
نعت کے اشعار کہنا سب سے مُشکل کام ہے
یہ تو ان کا فیض ہے جو رازؔ کہہ لیتا ہے کچھ
ورنہ نعتِ مصطفیٰ کہنا بہت دشوار ہے
نعت گوئی کریں اپنے بس کا نہ تھا ہم کہاں اور کہاں مدحتِ مصطفیٰ
رازؔ ہم پہ نبی کا کرم ہو گیا ہم بھی نعتِ نبی گنگنانے لگے
نعتیہ شاعری کا ایک اہم وصف کلام میں عقیدت و محبت کے ساتھ ساتھ جدت و ندرت کا ہونا ہے۔اگر یہ نہیں تو کلام میں زور و اثر پیدا نہیں ہوتا۔رازؔ کے کلام میں یہ خوبی پائی جاتی ہے ۔چند اشعار ملاحظہ ہوں:
انہیں کا تذکرہ ہے ابتدا سے۔انہیں کا تذکرہ ہے انتہا تک
آقا کا تصرف اب خود سوچئے کیا ہوگا۔جب کام ہے کا ولیوں کا مُردوں کا جِلا دینا
بڑی عظمت ہے آقا کی ہمیں تسلیم ہے لیکن۔نبی کا آستانہ پھر نبی کا آستانہ ہے
راز ؔ کی نعتوں میں تصنع اور آورد نہیں ہے بلکہ اشعار دل کی گہرائیوں سے اُبھرے ہیں اور صفحۂ قرطاس پر موتی کی لڑی کی طرح چمک رہے ہیں۔ان میں حقیقی جذبات جلوہ گر ہیں ۔درج ذیل اشعار ملاحظہ ہوں:
رکھ لیتا ہے ہمارا بھرم آپ کا کرم
ورنہ ہمارا کون یہاں غم گُسار ہے
چوم لیتے ہیں عقیدت سے خوداک دوجے کو لب
کس قدر میٹھا محمد مصطفیٰ ؐ کا نام ہے
سمجھ میں نہیں آیا کسی کو رازؔ یہ اب تک
کہ جنت میں مدینہ ہے یا جنت ہے مدینے میں
سرکارِ کائنات ﷺ کی حدیث مبارک ہے’’اوّل ما خلق اللہ نوری‘‘اللہ نے سب سے پہلے میرا نور پیدا فرمایا ۔اس حدیث مقدس کی ترجمانی رازؔ نے بہت خوبصورتی سے اس طرح کی ہے:
نہ تھا جہان میں کچھ اُن کے نور سے پہلے۔نبی تھے دونوں جہاں کے ظہور سے پہلے
تھے کائنات سے پہلے حضور مرے مگر۔یہ کائنات نہیں تھی حضور سے پہلے
راز ؔکی شاعری قرآن و حدیث اور تہذیبی عوامل کی ترجمانی سے منور ہے اور پورا کلام عشق و محبتِ رسول سے مہکتے اشعار سے معطر ہے۔ رازؔ کا بے لوث عشقِ رسول عظمتِ حبیبِ کردار کو کس والہانہ انداز میں بیان کرتا ہے ملاحظہ فرمائیں:
وہ نعت ہی نہیں ہے بادشاہوں کے خزینے میں
جو نعمت بھیک میں ملتی ہے منگتوں کو مدینے میں
اُسے دنیا کا کوئی غم ہراساں کر نہیں سکتا
غمِ سرکارِ بطحا بس گیا ہے جس کے سینے میں
نبی کے قرب میں اس کو ٹھکانہ کاش مل جائے
الٰہی رازؔ مر کر دفن ہو جائے مدینے میں
عرش پر فرش پر لامکاں میں ذکر جاری ہے دونوںجہاں میں
ایسی کوئی جگہ ہی نہیں جس جگہ اُن کا چرچا نہ ہو
ایک سچے پکے سنی مسلمان کی سب سے بڑی اساس حُبِّ نبی ہے ،جس کا دل محبتِ رسول سے خالی ہے وہ مسلمان کہلانے کا ہی حق دار نہیں ہے۔اس کا روزہ،نماز اور حج سب بے کار ہے۔تمام فضیلتوں اور سعادتوں کی بنیاد عشقِ رسول ہی ہے۔رازؔ اس حقیقت کو یوں بیان کرتے ہیں:
دل میں گر حُبِ شہہِ بطحا نہیں
پھر ترا سجدہ کوئی سجدہ نہیں
جو نبی کے ہاتھ سے مس ہو گیا.جسم کیا کپڑا بھی وہ جلتا نہیں
سنیوں کا آپ کے گستاخ سے۔کوئی رشتہ کوئی سمجھوتہ نہیں
ایک کامیاب شاعر اپنی شاعری میں صنعتوں کا استعمال بہت خوبی اور مہارتِ فن کے ساتھ کرتا ہے۔رازؔ نے دو صنعتوں کا یعنی صنعتِ تلمیح اور صنعتِ تضاد کا استعمال بہت خوبصورتی کے ساتھ کیا ہے:
صنعتِ تلمیح
جب شاعر اپنے کلام یا کسی آیت ،حدیثِ مبارکہ ،کسی مشہور تاریخی
واقعہ یا کسی کہاوت کے طرف اشارہ کرتا ہے تو اُسے صنعتِ تلمیح کہتے ہیں۔رازؔ نے اپنی شاعری میں کثرت سے اس صنعت کا استعمال کیا ہے،ملاحظہ ہوں:
پلٹ کے آیا ہے سورج قمر ہوا ٹکڑے۔اشارے تم یہ مرے مصطفیٰ کے دیکھو تو
مسکرائے نبی تو ضیا ہو گئی۔آپ کی یہ ادا معجزہ ہو گئی
نشانی دینا تھی دنیا کو تیری قدرت کی۔وہ ڈوبا شمس پھر انا تو اک بہانا تھا
وہ چاہتا تو نہ سورج کو ڈوبنے دیتا۔مگر خدا کو تصرف ترا دکھانا تھا
مصطفیٰ شہر ِعلم و حکمت ہیں۔اور علی ان کا باب کیا کہنے
میسر ہی نہیں ہے وہ گلاب و مُشک و عنبر کو
خدا نے جو مہک رکھی ہے آقا کے پسینے میں
صنعتِ تضاد
ایک ہی شعر میں ۲؍ لفظ ایک ہی طرح کے ہوں گے مگر معنی الگ الگ ہوں۔اسے صنعتِ تضاد کہتے ہیں۔رازؔ نے اس صنعت کا استعمال بھی بڑی خوبصورتی کے ساتھ کیا ہے ،ایک شعر ملاحظہ ہو:
جب اُن پہ مرنے والا بعد مرنے کے بھی زندہ ہے
بتاؤ پھر بھلا کیوں کر نہ ہو ں میرے نبی زندہ
مصرعِ اولیٰ میں لفظ مرنے دو بار آیا ہے۔ایک بار فدا ہوجانے کے معنی میں دوسری بار موت کے لیے، یہاں شعر میں صنعتِ تضاد ہے۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں تمام سنیوں کے امام یعنی سنیت کی علامت ہیں۔آپ عشقِ رسول کاایسا مینارہ ٔ نور ہیں جس کی ضیا پاشیوں سے تمام سنیوں کے ذہن و دل روشن ہیں۔آپ عاشقِ صادق ہیں اس لیے ہر سنی مسلمان خواہ وہ کسی بھی سلسلے سے تعلق رکھتا ہو امامِ عشق و محبت سے عقیدت رکھتا ہے۔، رازؔ خانقاہی مزاج کے ہیں‘ مئے حُبِ نبی سے سرشار ہیں ۔اسی نسبت سے اُنہیں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا سے بھی عقیدت و محبت ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے بعض نعتیہ اشعار امام احمد رضا کے نعتیہ اشعار کی ترجمانی کرتے نظر آتے ہیں۔چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
اللہ تبارک تعالیٰ واحد اور لاشریک ہے اور اس کے محبوب آقائے کون و مکاں یکتائے زمانہ ہیں ۔آپ جیسا نہ کوئی ہوا نہ ہوگا، اس کلیہ کو اعلیٰ حضرت نے اس طرح بیان کیا ہے:
ترے پایہ کا نہ پایا تجھے یک نے یک بنایا
بلال رازؔ نے امام احمد رضا کے اس شعر کی ترجمانی اس طرح کی ہے:
اُن کے جیسا کوئی بھی نہ آیا اُن کے جیسا نہ رب نے بنایا
ان کا ثانی کوئی کس طرح ہوجسم کا جن کے سایہ نہیں ہے
اعلیٰ حضرت کا شعر ہے:
وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں.تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں
بلال رازؔ نے بھی اس مفہوم کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے:
دشت کو لالہ زار کرتے ہیں ۔وہ خزاں کو بہار کرتے ہیں
اعلیٰ حضرت کی نعت کا مقطع ہے:
لیکن رضا نے ختم سخن اس پہ کر دیا ۔خالق کا بندہ خلق کا آقا کہوں تجھے
بلال رازؔ نے اس کی ترجمانی اس طرح کی ہے:
تو ہے خالق کا خلق ہے تیری۔تو خدا کا تری خدائی ہے
اعلیٰ حضرت نے اس واقعہ کی تصویر کشی اس طرح کی ہے: آقائے کائنات جب اس دنیا میں تشریف لائے تو خانۂ کعبہ کے سارے بُت ڈر و خوف سے کانپنے لگے ۔
تیری آمد تھی کہ بیت اللہ مجرے کو جھکا
تیری ہیبت تھی کہ ہر بُت تھر تھرا کے گر گیا
بلال راز نے اس شعر کی ترجمانی اس طرح کی ہے:
جب پیمبر کی دنیا میں آمد ہوئی ہر طرف چھا گئی روشنی روشنی
کعبتہُ اللہ جھکا اُن کی تعظیم کو پتھروں کے صنم تھر تھرا نے لگے
اس طرح کلامِ رازؔ میں بہت سے اشعار ہیں جن میں کلامِ رضاؔ کی ترجمانی ہے لیکن طوالت کے خوف سے سب کا ذکر ممکن نہیں۔بلال رازؔ نے سرور کون و مکاں کے اخلاق و عادات، علمِ غیب، رفعت، سر بلندی، تصرفات و اختیارات،آپ کی دستگیری و شفاعت، آپ سے عقیدت و محبت و غلامی وغیرہ تمام تشکیلی عناصر جو نعت مبارک کے لئے لازمی ہیں بڑی خوش اسلوبی اور مہارت ِ تامّہ کے ساتھ استعمال کیے ہیں۔اس کے ساتھ ہی آرزو،تمنا، مناجات ،حب نبی، سرکارِ دو عالم کا وسیلہ، اپنی عاجزی و انکساری ،عقیدہ و عقیدت وغیرہ کا ذکرکر کے سرکار سے اپنی وارفتگی و شیفتگی اور والہانہ لگاؤ کا ثبوت قدم قدم پر پیش کیا ہے۔
میں بارگاہِ الٰہی میں دعا گو ہوں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کی اس عظیم کاوش کو قبول فرماکر اسے اُن کے لیے زادِ آخرت و ذریعہ بخشش بنائے اور رازؔ کی بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں عقیدت کیشوں کے ثمرات و خیر وبرکات سے ہم سب کو حصہ عطا فرمائے اور بلا ل رازؔ کی نعتوں کی برکتوں سے قلب و نگاہ کو مجلّیٰ و مصفّیٰ کردے۔ آمین ٭٭٭
0 تبصرے