اُردو نعت میں ضمائر کا استعمال

اُردو نعت میں ضمائر کا استعمال

اُردو نعت میں ضمائر کا استعمال


ڈاکٹر اشفاق انجم (مالیگاؤں،بھارت)




’’نعت رنگ‘‘شمارہ نمبر ۲۱ میں جناب رشید وارثی (کراچی) کا مضمون ’’اردو نعت میں ضمائر کا استعمال‘‘نظر نواز ہوا، پڑھ کر افسوس ہوا۔ وارثی صاحب کا رویّہ بڑا جارحانہ و معاندانہ نظر آتا ہے ۔ ان کا ابتدائی جملہ ہے :
’’ تحریکِ پاکستان کے آغاز سے اب تک اردو ادب کا شاید ہی کوئی بد نصیب قابلِ ذکر شاعر ہو جس نے حمد و نعت میں خامہ فرسائی نہ کی ہو۔‘‘ (ص ۲۲)
’’تحریکِ پاکستان کے آغاز اور قیامِ پاکستان کے درمیان عرصہ میں اردو نعت میں ضمائر کے استعمال کی بے جان سی تحریک ماند پڑ چکی تھی۔‘‘ (ص۲۴)
ان بیانات کے ساتھ ہی آپ کا یہ بیان بھی توجہ طلب ہے :
’’ اسی جوش محبت اور عقیدت کا یہ فیضان ہے کہ اب سے تقریباً سو ، سوا سو سال پہلے اردو نعت میں ضمائر کے استعمال کا مسئلہ پیدا ہوا ۔ ‘‘ (ص ۲۲)

میں نہایت ادب سے کہنا چاہوں گا کہ ’’تحریکِ پاکستان کے آغاز‘‘ سے پہلے بھی اردو میں نعت گوئی کی روایت موجود تھی اور آج بھی دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جہاں اردو شعراء ہوں اور نعت نہ کہی جا رہی ہو۔ اس تعلق سے پاکستان کی تخصیص کچھ مناسب نہیںمعلوم ہوتی۔ ایک سوال اور بھی ہے کہ اردو نعت میں ضمائر کے استعمال کا مسئلہ سو ، سواسو سال پہلے پیدا ہوا تو کہاں ہوا؟‘‘
وارثی صاحب لکھتے ہیں:
’’چونکہ اردو زبان کے تمام مصادر اور اعداد کی طرح اس کی ضمائر بھی ہندی زبان سے لی گئی ہیں……… بعض زیادہ احتیاط پسند مسلم شعرائے کرام نے اپنے ذاتی قیاس پر ذاتِ رسالتمآب ﷺ کیلئے ’’تو، تم ، تیرا‘‘ جیسی ضمیروں کی جگہ ’’آپ اور ان‘‘ کا استعمال شروع کیا۔ (ص ۲۲،۲۳)

’’در اصل اردو زبان میں تمام ضمائر اور مصادر ہندی زبان سے لئے گئے ہیں اس لئے جو لوگ ہندی، زبان کے زیرِ اثر شعر کہتے ہیں ان کے یہاں تعظیم کیلئے آپ یا تم جیسی ضمیروں کا استعمال نظر آتا ہے۔ اس کے برعکس جو شعرائے کرام عربی زبان کے زیرِ اثر نعت کہتے ہیں ان کے یہاں ضمائر کی بجائے قرآن و حدیث کی پیروی میں تعظیم کیلئے کنّیت یا القاب کا استعمال عام ہے۔‘‘ (ص ۲۷)
وارثی صاحب اس بات کا اعتراف تو کرتے ہیں کہ اردو کی تمام ضمائر و مصادر ہندی سے مستعار ہیں لیکن اردو کی صرف و نحو کا کہیں ذکر نہیں کرتے جو ہندی، فارسی کا آمیزہ ہے۔ اس میں عربی کا کسی صورت امتزاج نہیں ہوا ہے۔ انہوں نے یہ تو کہا ہے کہ ’’جو لوگ عربی زبان کے زیرِ اثر نعت کہتے ہیں ان کے یہاں قرآن و حدیث کی پیروی میں تعظیم کیلئے کنّیت یا القاب کا استعمال عام ہے۔‘‘ لیکن اردو پر عربی زبان و ادب کے اثرات کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا (علاوہ ازیں کنّیت یا القاب اور ضمیر میں بہت فرق ہے ۔)جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اردو زبان و ادب پر صرف ہندی اور فارسی زبان و ادب کے ہی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ عربی کے الفاظ ضرور شامل تھے لیکن آج بتدریج ان کا استعمال اور تعداد کم ہوتی جا رہی ہے کیونکہ شعراء و ادباء کی ایک بہت بڑی تعداد عربی سے نابلد ہے۔ ۱۸۵۷ء سے قبل اور ا س کے بعد بھی کتنے ایسے شعراء ہوئے ہیں جو عربی سے واقف تھے (ہیں) جنہوں نے نعتیہ شاعری میں عربی اور اس کی روایات کو برتا ہے؟ صرف کنّیت یا القاب یا ضمیر’’تو‘‘ کے استعمال کو ’’اثر‘‘ نہیں کہا جا سکتا۔ عربی فارسی زبانوں میں ’’آپ‘‘ جیسی کوئی ضمیر نہیں ہے جو اپنے بزرگوں یا قابلِ احترام شخصیات کیلئے استعمال کی جا سکے ان زبانوں میں بھکاری سے لے کر بادشاہ تک کیلئے ’’انت‘‘ اور ’’تو‘‘ جیسی ضمیریں استعمال کی جاتی ہیں جو ان دونوں زبانوں میں تو درست ہیں لیکن ہماری زبان، تہذیب وآداب سے کوئی مطابقت نہیں رکھتیں اس لئے اردو میں ضمیر’’آپ‘‘ کے ہوتے ہوئے حضور ﷺ کیلئے ’’تو‘‘ کے استعمال کو نا مناسب سمجھا گیا ہے۔ علاوہ ازیں آپ جس زبان میں ادب تخلیق کر رہے ہیں اس کے اصولوں اور اقدار کی پابندی بھی آپ پر لازم ہوگی ۔ ہم اردو تخلیقات کو اردو ہی کے لسانی اصولوں اور اقدار و روایات پر پرکھیں گے کسی غیر زبان کے اصول و معیار پر نہیں۔

رشید وارثی صاحب کا یہ بیان بھی بڑا دلچسپ ہے:
’’ہندی زبان کی ضمیر’’آپ‘‘ اگر واقعی تعظیم کیلئے ہے تو اس کی جڑ بالکل کھوکھلی ہے کیونکہ عام طور پر چھوٹے بچّوں ، شاگردوں یا خادموں کو تنبیہہ کیلئے اس قسم کے الفاظ کہدئے جاتے ہیں جیسے ’’آپ نالائق ہیں‘‘ یا ’’آپ بہت بدمعاش ہو گئے ہیں‘‘یا ’’آپ کی ایسی تیسی‘‘ وغیرہ (ص ۳۷)
ہندوستان اور پاکستان کی ادبی و لسّانی اور تہذیبی اقدار ایک ہی ہیں۔ امتدادِ زمانہ اور تقسیم کے بعد پاکستان میں پنجابی زبان و تہذیب کے زیرِ اثر سماجی و لسّانی اقدار میں کچھ تبدیلیاں ضرور واقع ہوئی ہیں لیکن لسّانی اصول اور زبان کا بنیادی ڈھانچہ تبدیل نہیں ہوا ہے ۔
ہمارا سماج کئی طبقات میں بٹا ہوا ہے ، اعلیٰ طبقہ جو زبان و تہذیب کا معیار سمجھا جاتا ہے ان کے درمیان ’’آپ اور ہم‘‘ کی ضمیریں استعمال ہوتی ہیں، اس میں چھوٹے بڑے کی قید نہیں ہے۔ دوسرا متوسط طبقہ ہے جو دوسروں کیلئے تو ’’آپ‘‘ کی ضمیر لیکن خود اپنے لئے ’’میں‘‘ کی ضمیر استعمال کرتا ہے ۔ تیسرا طبقہ جو نسبتاً کم علم اور جہلا پر مشتمل ہے وہ ’’تو، تیرا، تیری ‘‘ جیسی ضمیریں استعمال کرتا ہے ۔

ضمیروں کے استعمال سے متعلق خود وارثی صاحب کی تحریروں سے چند اقتباسات پیشِ خدمت ہیں:
(۱) ۱۹۰۷ء میں مولانا احمد علی باقی پوری علیہ الرحمہ کا نعتیہ کلام ’’موجِ سلسبیل‘‘ (نغمۂ محبت) کے نام سے طبع ہو کر منظرِ عام پر آیا یہ مجموعی طور پر’’ ان‘‘ کی زندگی کے ۶۲ برسوں پر محیط مجموعۂ کلام ہے ، ’’ان‘‘ کے بعض منتخب اشعار ہدیۂ قارئین ہیں۔ (ص ۲۳)
(۲) یہ بزرگ مولانا احمد رضاخان فاضل بریلوی، حضرت بیدم شاہ وارثی ، حضرت اکبر وارثی میرٹھی ، مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا ریاض خیرآباد ، مولانا محمد علی جوہر اور مولانا حسرت موہانی کے ہم عصر بزرگوں میں سے ’’تھے‘‘۔ (ص ۲۳)
(۳) ’’ہم‘‘، راجا رشید محمود صاحب کی خدمت میں اظہارِ تشکر کے ساتھ اقتباسات کی صورت میں قارئین کرام کے اطمینان کیلئے ہدیہ’’ کرتے ہیں‘‘۔ (ص ۳۰)
(۴) اگر اقبال کے سامنے ’’تو‘‘ پر اعتراض کرتے تو شاید وہ یہ کہہ’’ اُٹھتے ‘‘؟ (ص ۳۰)

(۵) یہ پانچ شعر ایک طرف اور آج کے اکابر کے بہت سے مجموعے ایک طرف اور پھر’’ آپ‘‘ خود انصاف کیجئے کہ کون سا پلڑا بھاری ہے ۔ (ص ۳۲)
(۶) اقبال صاحب طلسم گنجینۂ معنی ’’تھے‘‘،’’ ان‘‘ کا ہر لفظ علامت بکنا و اور گنجہائے معانی درکنار ہے۔ (ص ۳۲،۳۳)
(۷) ’’آپ‘‘ ﷺ کے اسمائے صفات میں سے ایک اسمِ مبارک یتیمٌ بھی ہے ۔ (ص ۳۷)
(۸) بنو تمیم کا وفد جو ستر اسّی افراد پر مشتمل تھا مدینہ منورہ گیا اور حضور کے حجرۂ مبارک سے باہر کھڑے ہو کر صدائیں لگانے لگا: یامحمد اخرج علینا، حضور کا نامِ اقدس لے کر کہنے لگا ’’اے محمد ہمارے پاس باہر’’ آئیے‘‘ ، حضور ﷺ باہر تشریف لے’’ آئے‘‘۔‘‘ (ص ۳۹)
(۹) البتہ مسئلہ یہ بھی بیان ہوا ہے کہ اگر یا محمد کہنے کے ساتھ’’ آپ‘‘ کی کوئی صفت ملائی جائے تو یہ کہنا درست ہو جاتا ہے ۔ (ص۴۰)
(۱۰) علاّمہ اقبال کی نظم کے کچھ اشعار ہدیہ کرتا ہوں جو انہوں نے اپنی والدہ مرحومہ سے خطاب میں نظم کئے ’’تھے‘‘۔ (ص ۴۰)
(۱۱) ’’تو‘‘ کا لفظ رب العزّت کیلئے ہماری زبان میں بنیاد ی طور پر استعمال ہوتا ہے۔ پھر یہ لفظ صرف اللہ اور رسول کی نسبت سے ہماری زبان کا سب سے زیادہ محترم لفظ ہے ۔‘‘ (ص ۳۲)

وارثی صاحب کے نزدیک جب ضمیر’’تو‘‘ نہایت ہی محترم و مقدس لفظ ہے تو مندرجہ بالا عبارات میں درج بزرگوں کو ’’تو‘‘ کی بجائے ’’آپ‘‘ سے خطاب کیوں کیا ہے؟ جب کہ ان ہی کے مطابق ’’آپ‘‘ چھوٹے بچوں ، شاگردوں اور خادموں کیلئے بطورِ تنبیہ استعمال ہوتا ہے ، کیا یہ علماء و اکابر چھوٹے بچّے ، شاگرد یا خادموں میں شمار ہوتے ہیں؟ کیا ضمیر ’’تو‘‘ صرف شاعری میں محترم و مقدّس ہے نثر میں نہیں؟ آخر یہ اردو ضمیر’’تو‘‘ بنیادی طور پر ہے کس زبان کی! ہندی ، فارسی یا عربی؟
عجیب مضحکہ خیز صورتِ حال ہے وارثی صاحب کی نظر میں ’’تو‘‘ شاعری میں مقدس و محترم لفظ ہے اور نثر میں مردود، اور نثر میں ’’آپ ‘‘ محتر م و مقدس ہے تو شاعری میں مردود!!
یہ بیں تفاوت رہ از کجا ست تابہ کیجا!!
عبارات نمبر ۷،۹ میں وارثی صاحب نے حضور ﷺ کیلئے ضمیر’’آپ‘‘ استعمال کی ہے ۔
عبارت نمبر ۸ میں بنو تمیم کے وفد کی آمد کا ذکر کیا ہے اور عربی عبارت ’’اخرج علینا‘‘ کا ترجمہ ’’اے محمد ! ہمارے پاس باہر آئیے۔‘‘ کیا ہے جب کہ عربی قاعدے کے رو سے نعوذ با اللہ ترجمہ یوں ہونا چاہیئے تھا ’’اے محمد! ہمارے پاس باہر آ۔‘‘

عبارت نمبر۳ میں وارثی صاحب نے واحد متکلم کیلئے ضمیر’’ہم‘‘ استعمال کی ہے یہ خالص ہندی ضمیر ہے جب کہ عربی، فارسی میں واحد متکلم کیلئے ایسی کوئی ضمیر نہیں ہے ۔
ایک بات اور واضح کردوں کہ آپ جس زبان میں لکھتے ہیں، بات کرتے ہیں تو آ پ کیلئے اسی زبان کے لسّانی اصول و قواعد کا استعمال نا گزیرہے۔ بڑے بڑے جیّد علماء اور عربی زبان کے ماہرین نے اردو میں بھی بہت کچھ لکھا ہے لیکن کسی ایک نے بھی عربی ضمائر، انت، انتما، انتم وغیرہ کہیں بھی استعمال نہیں کی ہے ۔ ہر ایک نے انہیں ضمائر کا استعمال کیا ہے جو اردو زبان میں مستعمل ہیں۔
وارثی صاحب کے درج ذیل بیانات بھی ملاحظہ فرمائیے۔
(۱) چوں کہ اردو زبان کے تمام مصادر او ر اعداد کی طرح اس کی تمام ضمائر ہندی زبان سے لی گئی ہیں ۔ لہٰذا اٹھارویں صدی کے اواخر میں اس کی بعض ضمیریں خداوند کریم اور اس کے حبیبِ پاک ﷺ کیلئے استعمال کرنے پر عوامی سطح پر اعتراضات نے جنم لینا شروع کیا۔ (ص ۲۳)
(۲) تحریکِ پاکستان کے آغاز اور قیامِ پاکستان کے درمیانی عرصہ میں اردو نعت میں ضمائر کے استعمال کی بے جان سی تحریک ماند پڑ چکی تھی کہ ۱۹۵۰ء کے عشرے میں سیّد انوار ظہوری نے اسے پھر سے توانا رکھنے کی کوششوں کا آغاز کیا۔ (ص۲۴)

(۳) ماہنامہ ’’نعت‘‘ لاہور کے ایڈیٹر محترم راجا رشید محمود نے ’’حضور ﷺ کیلئے لفظ ’’آپ ‘‘ کا استعمال‘‘ کے عنوان سے ماہنامہ ’’نعت‘‘ لاہور کے شمارہ جولائی ۱۹۹۶ء میں تفصیل سے شائع کیا۔‘‘ (ص ۲۴)
(۴) نعت نمبروں میں سب سے پہلے ما ہ نامہ ’’شام و سحر‘‘ لاہور نے نعت نمبر ۵ میں جو جنوری ،فروری ۱۹۸۶ء میں شائع ہوا، اعلان کیا کہ زیرِ نظر نعت نمبر میں نے ہم یہ التزام کیا ہے کہ صرف وہی نعتیں بارگاہِ رسالت میں نذر کی جائیں گی جن میں رسالت مآب ﷺ سے تخاطب کیلئے صیغۂ واحد حاضر یعنی تو، تیرا، تجھے کی جگہ تعظیمی صیغہ استعمال کیا گیا ہو۔ (ص ۲۵)
(۵) انٹر سروسز پبلک ریلیشنز ڈائرکٹوریٹ ، راول پنڈی کے ہفت روزہ ’’ہلال‘‘ نے ۳۰؍ مئی ۱۹۹۴ء کو جو ’’نعت نبی المکرم ‘‘ نمبر شائع کیا ۔ اس کے پہلے صفحے پر لکھا’’ اس چمنِ زار نعت کے سارے پھول اور ساری نعتیں ہمارے قارئین کرام نے مرحمت فرمائیں لیکن ہم نے صرف وہی نعتیں شامل کی ہیں جن میںمحبوبِ خدا حضرت محمد ﷺ کو ’’تو ، تم ،تمہارا ، تیرا سے مخاطب نہیں کیا گیا۔‘‘ (ص ۲۶)
وارثی صاحب نے حضور ﷺ کیلئے ضمیر ’’آپ‘‘ استعمال کرنے والوں کی تحریک کو ’’عوامی سطح کی تحریک‘‘ قرار دیا ہے ، میں ان سے دریافت کرنا چاہتا ہوں:
محترم راجا رشید محمود، سیّد انوار ظہوری (جو میری دانست میں نعت کے حوالے سے پاکستان کے معتبر فنکار ہیں) ماہنامہ ’’نعت‘‘ ، ماہنامہ ’’شام و سحر‘‘ اور ہفت روزہ’’ہلال‘‘ کے مدیران اور ادارے کے اراکین ’’عامیوں‘‘ میں شمار ہوتے ہیں ؟ کیا انٹر سروسز ڈائر کٹوریٹ میں غیر ادبی شخصیات اور عامیوں کو عہدے اور اسامیاں دی جاتی ہیں؟ اگر وارثی صاحب کی نظر میں محترم راجا رشید محمود، سیّد انوار ظہوری اور متذکرہ رسائل کے مدیران’’عامیوں‘‘ میں تھے تو پھر آپ کے نزدیک ’’خواص‘‘ کون ہیں؟
صفحہ ۳۳ پر وارثی صاحب لکھتے ہیں:
’’بات یہ ہے کہ رسولِ عربی ﷺ کی نسبت سے جس نے بھی ’’تو‘‘ کی یکتائی کو سمجھا اسے عشقِ یکتا سے نواز دیا گیا۔‘‘
کیا وارثی صاحب’’تو کی یکتائی‘‘ اور ’’عشقِ یکتا‘‘ کی وضاحت و تشریح کی زحمت گوارہ فرمائیں گے؟

اس موقع پر ایک لطیف نکتے کی جانب قارئین کرام کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ ضمیر’’تو‘‘ واحد حاضر مخاطب کیلئے استعمال کی جاتی ہے۔ کیا کوئی نعت گویہ دعوے سے کہہ سکتا ہے کہ جب وہ نعت کہتا ہے یا کہیں سناتا ہے تو حضور ﷺ وہاں حاضر و تشریف فرما ہوتے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر یہاں ضمیر واحد غائب کا استعمال اولیٰ ٹہرتا ہے اور اس کے لئے صرف ایک ہی ضمیر ہے اور وہ ہے ’’آپ‘‘ جو ضمیرِ اشارہ کا کام بھی دیتی ہے اور احترامِ رسالت بھی قائم رکھتی ہے۔
رشید وارثی صاحب لکھتے ہیں:
’’لفظوں کی اہمیت اور معنویت پر غور کرنے کی ایک صورت اور معتبر صورت یہ ہے کہ آپ یہ دیکھیں کہ وہ لفظ متروک ہو گیا ہے یا نہیں؟ اور اگر استعمال ہو رہا ہے تو کیا اس کے استعمال میں کوئی تبدیلی ہوئی ہے؟………’’تو‘‘ کا لفظ آج بھی محبوب کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ (ص ۳۰)

جہاں تک متروکات کا تعلق ہے ’’ایدھر، اودھر، کبھو، کسو، لوہو‘‘ وغیرہ الفاظ متفقہ طور پر متروک قرار دئیے گئے ہیں ورنہ دہلی اور لکھنؤ کے دبستانوں کے اختلافات سے آپ واقف ہی ہوں گے کہ ایک لفظ جو دہلی میں متروک ہوا وہ لکھنو میں مقبول اور جسے لکھنو والوں نے متروک کیا اسے اہلِ دہلی نے تسلیم نہیں کیا، اس کی ایک مثال لفظ’’ تلک‘‘ ہے جسے اساتذہ لکھنو باالخصوص ، امام بخش ناسخؔ نے متروک قرار دیا لیکن اہلِ دہلی نے تسلیم نہیں کیا اور آج بھی یہ لفظ مستعمل ہے ’’جہاں تلک یہ ستم کی سیاہ رات چلے‘‘ نیز یہ بھی یاد رہے کہ ’’تو‘‘ ضمیر ہے نہ یہ متروک ہو سکتی ہے اور نہ تبدیل!!
ضمیر’’تو‘‘ آج بھی محبوب کیلئے استعمال ضرور ہوتی ہے لیکن یہ محبوب ’’غزل‘‘ کا محبوب ہے اور سبھی جانتے ہیں کہ اس زمانے میں غزل کا محبوب کون تھا! طوائفیں اور مغبچے!! اسی لئے میرؔ صاحب اطّبا کی بجائے ’’عطّار کے لونڈ ے سے دوا لیتے تھے۔‘‘ اور قدما کی یہ روایت آج بھی برتی جا رہی ہے چاہے محبوبہ خاتونِ خانہ ہی کیوں نہ ہو۔
ایک بات او ر عرض کروں پتہ نہیں آپ کو میرے اس نظرئیے سے اتفاق ہوگا یا نہیں’’نبی ٔ کریم حضرت محمد ﷺ اللہ ربّ العزت کے محبوب‘‘ ہیں جس طرح اللہ تعالیٰ اپنی وحدت میں شرکت کسی طور پسند نہیں کرتا، اسی طرح ’’محبوبیت‘‘ میں بھی شرکت اسے ناگوار ہوگی۔ ہاں! آپ حضور ﷺ کی ہستیٔ مبارک سے عشق کر سکتے ہیں لیکن حضور ﷺ کو اپنا ’’محبوب‘‘ کہنے کی جسارت نہیں کر سکتے۔ کیونکہ ہماری آپ کی اوقات ہی نہیں ہے کہ نبیٔ رحمت ﷺ کو اپنا محبوب کہہ سکیں ۔ کیا ہمارے اندر ایسی کوئی صفت ہے کہ محبوب رب العزّت کو ہم بھی اپنا محبوب کہہ سکیں؟؟ میرے اندر تو قطعی نہیں ہے اپنا آپ جانیں !! اِس بنا پر بھی میں حضور ﷺ کیلئے ضمیر ’’تو‘‘ کے استعمال کا مخالف ہوں کہ آپ ﷺ ’اللہ ‘ کے محبوب ہیں، جب خود اللہ تعالیٰ حضور انور ﷺ کو آپ کے نام کے بجائے یٰسین، طٰہٰ، مزّمل و مدثر جیسے القاب سے یاد کرتا ہے تو پھر ہمیں کیا حق پہنچتا ہے کہ ہم آپ کا نام لے کر یا ’’تو ‘‘ سے مخاطب کریں ! اسی لئے یہ تخاطب میرے نزدیک بے ادبی ہی نہیں بلکہ گستاخی ہے۔



’’آپ ‘‘ کے عَلم برداروں سے وارثی صاحب نے بڑا دلچسپ سوا ل کیاہے؟
’’مجھے نہیںمعلوم کہ ’’آپ‘‘ کے علم بردار نمازوں کے بعد اللہ سے کس صیغے میں دعائیں مانگتے ہیں۔ ایاک نعبد وایاک نستعین کا ترجمہ ہم نے تو یوں ہی پڑھا ہے’’تیری ہی ہم بندگی کرتے ہیں اور تجھی سے مدد چاہتے ہیں۔‘‘ (ص ۳۰)
وارثی صاحب کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ قرآن حکیم میں سورۃ فاتحہ جس طرح آئی ہے ہم اسی طرح حرف بہ حرف عربی ہی میں پڑھتے ہیں جس میں ’’ایاک نعبد وایاک نستعین‘‘ بھی شامل ہے ہم نمازوں میں قرآنی آیات ہی پڑھتے ہیں ان کا اردو ترجمہ نہیں کہ ’’تیری اور تجھی‘‘ کا سوال پیدا ہو۔ نیز نمازوں کے بعد ہم وہی دعائیں مانگتے ہیں جو قرآنِ کریم میں آئی ہے اور اگر اپنے مقصد سے متعلق کوئی قرآنی دعا یاد نہیں ہے تو ہم اس طرح اردو میں دعا مانگتے ہیں ۔‘‘
’’ا ے اللہ مجھے مقدمے میں کامیابی عطا فرما، اے اللہ رشید احمد گھٹیا کے مرض سے نجات عطا فرما، اے اللہ حضور ﷺ کیلئے ’’تو‘‘ کی ضمیر استعمال کرنے والوں کو عقل و شعور عطافرما۔‘‘ وغیرہ وغیرہ
وارثی صاحب کی ایک دلچسپ عبارت اور ملاحظہ فرمائے یہاں بھی ’’آپ‘‘ کے علم برداروں سے خطا ہے :
’’نماز میں التحیات پڑھتے ہوئے کہا جاتا ہے ’’السلام علیک ایھا لنبی‘‘ اور تنہا شخص بھی نماز پڑھ رہا ہو تو ’’السلام علینا وعلیٰ عباد اللہ الصالحین ‘‘ کہنے کا حکم ہے ۔(ص ۳۵)

وارثی صاحب! اللہ کا شکر ہے کہ ہم لوگ ’’التحیات‘‘ میں وہی عربی عبارت پڑھتے ہیں جو حضور ﷺ نے تعلیم فرمائی ہیں۔ آپ کس زبان میں پڑھتے ہیں؟ اردو میں ؟؟ مجھے علم ہے کہ ایک وقت پاکستان میں ’’اردو میں نماز پڑھنے کی تحریک‘‘ شروع ہوئی تھی، کیا آپ اب تک اس تحریک سے وابستہ ہیں؟
’’تو‘‘ کے تعلق سے وارثی صاحب ، امام احمد رضا خان صاحب فاضل بریلوی ؒ کا ایک فتویٰ درج کرتے ہوئے ’’آپ‘‘ کے علم برداروں کو آگاہ کرتے ہیں۔
’’مولانا احمد رضا خان بریلویؒ سے اللہ تعالیٰ کیلئے جمع کی ضمیر استعمال کرنے کے بارے میں استفسار کیا گیا تو آپ نے تحریر فرمایا ’’اللہ عزو جل کو ضمائر مفرد سے یاد کرنا مناسب ہے کہ وہ واحد، فرد اور وتر ہے اور تعظیماً ضمائرِ جمع میں بھی حرج نہیں ہے ۔ بہرِ حال یوں ہی کہنا مناسب ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔‘‘ (ص ۳۴)
اس تعلق سے میں یہ وضاحت ضروری خیال کرتا ہوں کہ ہماری بحث اللہ تعالیٰ کیلئے ضمیر ’’تو‘‘ کے استعمال پر نہیں ہے بلکہ بحث حضور ﷺ کے تعلق سے ہے ۔

وارثی صاحب رقم طراز ہیں:
’’اردو نعت میں حضور اکرم ﷺ کیلئے’’تو، تم ، تیرا‘‘ جیسے ضمائر استعمال کرنے پر اب تک صرف عوامی سطح پر ہی اعتراض سامنے آیا ہے …… اس سلسلے میں کسی تحقیق و تدقیق یا مفتیانِ دینِ متین اور اکابرینِ ملّت کے تعمل پر غور و فکر کرنے کی بجائے ( اس بے تحقیق رویے پر) اظہار فخر بھی کیا جاتا ہے ۔‘‘(ص ۳۵)
جنابِ عالی ! جب فتویٰ موجود ہے تو ’’اکابرینِ ملّت کے تعمل پر غور و فکر ‘‘ کی ضرورت ہی کیا ہے؟
’’ادلۃ الاحکام الشرعیہ‘‘ (شرعی احکام کے دلائل) کیلئے ۱۴ ؍شرائط یا اصول مقرر ہیں، (۱)قرآن (۲) احادیثِ رسول ﷺ ان میں قول ، فعل ، تقریر ، وصف خلقی و خلقی شامل ہیں
(۳) اجماع (۴)اجماع الخلفائے راشدین (۵) قولِ صحا بی (۶) اجماعِ اہلِ مدینہ
(۷) ہم سے قبل کی شریعتیں (شرعِ محمدی جن کی مخالف نہ ہو) (۸) استحسان (۹) مصالح مرسلہ
(۱۰) سد ذرائع (۱۱) استصحاب (۱۲) استقراء (۱۳) استدلال
(۱۴) العرف والعادۃ (عرف و عادت)۔

ان میں ’’عرف و عادت‘‘ پر غور فرمائیں تو فتویٰ از خود سامنے آجاتا ہے، اس کی تین مثالیں پیش کرتا ہوں:
(۱) کسی نوکر کو آپ نے کام پر رکھااور اسے کہا کہ وہ آ پ کے پاس ایک مہینہ کام کرے گا تو اس میں جمعہ کا دن داخل نہیں ہوگا اگرچہ شرط نہیں رکھی ہے کیونکہ عرف میں جمعہ تعطیل کا دن ہے۔
(۲) ہمارے یہاں شداد، یزید ، شمر جیسے نام نہیں رکھے جاتے جب کہ بذاتہٖ ان ناموں میں کوئی عیب نہیں ہے ۔ (مجھے یقین ہے کہ پاکستان میں بھی ایسا ہی ہوگا۔) اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ یہ نام ’’عرف‘‘ میں گالی سے بھی بدتر سمجھے جاتے ہیں۔
(۳) کسی انسان نے کسی انسان کو ایک لفظ سے برا کہا اور مشتوم نے دعویٰ کیا کہ شاتم نے اسے گالی دی ہے تو اس لفظ کے با ب میں عرف کی رعایت کی جائیگی۔

بعینہٖ ہماری سماجی و تہذیبی اقدار کے پیشِ نظر لفظ’’ تو ‘‘ چھوٹے اور ادنیٰ لوگوں کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ جس میں تحقیر و تضحیک کا پہلو بھی نمایاں ہوتا ہے۔ اگر وارثی صاحب کے نزدیک ’’تو‘‘ واقعی محترم و مقدس لفظ ہے اور آپ کے وارثی ہونے سے یہ مراد لی جائے کہ آپ سلسلۂ وارثیہ میں کسی بزرگ سے بیعت ہیں تو ایک بار دورانِ گفتگو یا خط میں اپنے پیر و مرشد کو ’’تو‘‘ سے خطاب کر کے دیکھیں اور ان کے ردِّ عمل سے ناچیز کو بھی آگاہ فرمائیں۔ اور اگر وارثی صرف بطور Sirname استعمال کرتے ہیں تو اس ’’تو‘‘ کا تجربہ اپنے والدین اور بزرگوں پر کر کے دیکھئے آپ کو اس لفظ کی تحریم وتقدیس کا اندازہ ہو جائیگا۔
وارثی صاحب تحریر فرماتے ہیں:
’’باعثِ تخلیق کائنات ﷺ کو ضمائرِ مفرد سے یاد کرنے میں آپ کی شانِ یکتائی ، شانِ بے مثال اور شانِ یگانہ و بے ہمتا کا اظہار ہوتا ہے… مسجدِ نبوی زاد اللہ شرفہا میں باب السلام سے شروع ہو کر محراب میں سے ہوتے ہوئے باب البقیع تک طلائی حروف میں لکھے ہوئے اسماء النبی ﷺ میں پانچویں یا چھٹے نمبر پر آپ کا اسمِ صفت وحیدٌ تحریر ہے جس کے معانی ہیں یگانہ،یکتا، لاثانی۔‘‘( ص ۳۵)

اللہ رب العزّت اور نبی کریم ﷺ کے ۹۹۔۹۹ اسماء کے طغرے تمام عالم میں دستیاب ہیں ’’ اللہ ، واحد،خالق، متکبر جیسے اسماء کو چھوڑ کر تقریباً تمام اسمائے الٰہی (صفاتی) حضور ﷺ کی ذاتِ اقدس کیلئے بھی معروف ہیں ، لیکن ان میں فرق یہ ہے الٰہی صفات سے کامل طور پر کوئی متصف نہیں ہے جب کہ حضور ﷺ تمام مخلوقات میں تنہا ایسی ہستی ہیں جن پر ان تمام اسمائے صفاتی کا اطلاق ہوتا ہے۔ بعض اوقات یہ اسمائے صفاتی دیگر انسانوں کیلئے بھی استعمال کئے جاتے ہیں مثلاً لقمان علیہ السلام کو ’’حکیم‘‘ کہا جاتا ہے لیکن دنیا جانتی ہے کہ ’’حکمت و دانش‘‘ میں آپ ؑ،حضور اقدس ﷺ کے قد تک نہیں پہنچتے۔ اسی طرح امام احمد رضا خان فاضل بریلویؒ کو’’وحید العصر‘‘ کہا جاتا ہے مطلب یہی ہے نا کہ فاضل بریلویؒ اپنے عصر کے تمام علماء میں یکتا و لاثانی تھے۔ وارثی صاحب کو فاضل بریلوی ؒ کیلئے ’’تو‘‘ یا اِس جیسی کوئی ضمیر استعمال کرنی تھی کہ آپ ؒ کی شانِ یکتائی نمایاں رہے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا کیوں؟ برائے احترام یا بلحاظ زبان و تہذیب؟؟
رشید وارثی صاحب لکھتے ہیں:
’’ اللہ تعالیٰ کی وحدت پر ہمارا یمان ہے لیکن اسی طرح نبوت کے سلسلے کی عظیم کڑی ہوتے ہوئے حضرت محمد ﷺکی وحدت اپنی جگہ ہے… جس طرح اللہ کے اختیارات و منصب میں ہم کسی کی شرکت کے بارے میں سوچ نہیں سکتے ، اسی طرح حضور ﷺ اپنے مرتبے میں تنہا ہیں۔ (ص ۳۱)




واحد، وحدت صرف اللہ کی ذات پاک سے متعلق ہیں اور اگر حضور ﷺ بھی وحدت کے حامل ہیں تو اس کی وضاحت نہیں کی گئی کہ کس طرح؟ یہ وحدت اللہ کے مقابل ہے یا انبیاؑ اور انس و جاں کے درمیان؟؟ اگر مراد انسانوں اور جنوں کے بیچ ہے تو یہ وحدت نہیں ’یکتائی کہلائیگی، ایک ہی جنس کی کئی چیزوں میں جو سب سے نمایاں ، سب سے خوبصورت اور بہترین ہو اسے ’’یکتا‘‘ کہا جاتا ہے جیسے خودوارثی صاحب نے ’’دُرِّ یتیم ‘‘ سے متعلق درج فرمایا ہے کہ ’’ یہ اپنی آپ و تاب اور قدر و قیمت میں بے مثال ہو تا ہے ۔ ‘‘ (ص ۳۷) ظاہر ہے کہ ہزاروں ، لاکھوں موتیوں کے درمیان ہی ’’در یتیم‘‘کی قدر و قیمت معلوم ہوتی ہے۔ قرآنِ کریم کی یہ آیت بھی پیشِ نظر رکھئے لا نفرق بین احد…
وارثی صاحب رقمطراز ہیں:
’’ شاہ عبد القادر سے کر مولانا مودودی تک قرآنِ حکیم کے تمام مفسروں نے ، مولانا اشرف علی تھانوی کے استثنیٰ کے ساتھ اللہ کیلئے ’’تو‘‘ کا صیغہ استعمال کیا ہے ۔ کیا معاذ اللہ ان علماء اور مترجموں کو گستاخی اور ’’ توتکار‘‘ کا مرتکب قرار دیا جا سکتاہے؟ یہ ذوقی اور لسّانی معاملہ ہے ۔ اللہ کی وحدت تقاضہ کرتی ہے کہ اس کے لئے ’’تو‘‘ کی ضمیر استعمال کی جائے۔ (ص ۳۱)

وارثی صاحب ! اوّل تو بحث یہاں حضور ﷺ کیلئے ’’تو‘‘ کے استعمال پر ہے(اللہ کیلئے نہیں) نیز ہم ( میں اور ڈاکٹر صابرسنبھلی صاحب) نے ایسا کب کہا ہے کہ علماء ’’توتکار‘‘ کے مرتکب ہوئے ہیں؟ ہمارا بھی تو یہی کہنا ہیکہ اللہ کی وحدت تقاضہ کرتی ہے کہ اسے ہر حال میں صیغۂ واحد یعنی ’’تو‘‘ سے خطاب کیا جائے۔ ضمیر’’آپ‘‘ واحد، جمع دونوں کیلئے مستعمل ہے، اس لئے ’’جمع ‘‘ کی قباحت سے بچنے کیلئے اللہ تعالیٰ کو ’’آپ‘‘ کی بجائے ہم لوگ ’’تو‘‘ سے خطاب کرتے ہیں اور چونکہ حضور اقدس ﷺ کائنات میں اللہ کے بعد سب سے زیادہ بزرگ و مقدس ہستی ہیں اس لئے حضور ﷺ کیلئے ہم احتراماً’’آپ‘‘کا صیغہ استعمال کرتے ہیں جو آپ کے شایانِ شان ہے۔ نیز حضور ﷺ کی ہستی مبارک ’’ذوقی و لسانی‘‘ معاملے سے بالا تر ہے، آپ اپنے ذوق اور ’’عقلِ سلیم‘‘ پر حضور ﷺ کا مقام و مرتبہ متعین نہیں کر سکتے۔ اسی لئے آپ ﷺ کیلئے ’’تو‘‘ کا صیغہ استعمال کرنا ہمارے نزدیک بے ادبی ہی نہیں بلکہ گستاخی ہے۔
وارثی صاحب تحریر فرماتے ہیں:
’’بات یہ ہے کہ رسول عربی ﷺ کی نسبت سے جس نے بھی ’’تو‘‘ کی یکتائی کو سمجھا اسے عشقِ یکتا سے نواز دیا گیا۔ ‘‘ (ص ۳۳)

میں نہایت ہی ادب سے درخواست کرتا ہوں کہ وارثی صاحب اس’’تو‘‘ کی یکتائی اور ’’عشقِ یکتا‘‘ کی تشریح و وضاحت فرمائیں تا کہ ہم جیسے کم علموں کی معلومات میں اضافہ ہوا ور ایسے کچھ لوگوں کی نشاندہی بھی فرمائیں جنہیں ’’ تو کی یکتائی ‘‘ کی معرفت ’’ عشقِ یکتا‘‘ تک پہنچا دیا ہو۔
وارثی صاحب فرماتے ہیں:
’’جب تخلیقی لمحوں میں ہمارا جذب دروں ہمیں عشق کے پر لگا کر اُڑاتا ہے اور جب یہ بزم کائنات ہمارے لئے بدل جاتی ہے تو یہ سارے القاب ، یہ سارے آداب ، یہ سارے لفظ ایک لفظ میں بدل جاتے ہیں ’’تو‘‘ میں …… یہ چھوٹا سا یک رُکنی لفظ کائنات کا سب سے محترم اور مقدس لفظ بن جاتا ہے یہ ہمارے دل کی دھڑکن بن جاتا ہے ۔ یہ ہماری خلوتوں کا آئینہ بن جاتا ہے وہ خلوت جس میں جمالِ مصطفی ﷺ ہوتا ہے اور ہماری حیرانی ! یہ ہمارے اختیار کی نہیں بلکہ سپردگی کی منزل ہوتی ہے۔ (ص ۳۴)

وارثی صاحب ! یہ تخلیقی لمحات اور جذب دروں کیا ہوتا ہے؟ … جو عشق کے پر لگا کر اُڑاتا ہے اور کائنات کو بدل دیتا ہے جہاں سارے القاب و آداب ایک لفظ ’’تو‘‘ میں بدل جاتے ہیں ؟ ایسے تخلیقی لمحات اور جذبِ دروں کے حامل کتنے شعراء ہوئے ہیں ( ہیں)؟ اور ایسی خلوت کتنے نعت گو شعراکو میّسر ہے جہاں جمالِ مصطفی ﷺ بے حجاب پیشِ نظر ہوتا ہے ؟
جنابِ عالی ! اوّل تو خلوتِ رسول ﷺ تک رسائی ہی مشکل ترین مرحلہ ہے چہ جائیکہ دیدار کی نعمت کا حصول!! یہاں ’’تو‘‘ کی تو نوبت ہی نہیں آتی ۔ یہ مجلس تو وہ ہے کہ اغواث و ابدال تک نظر اُٹھانے کی تاب نہیں رکھتے ، ان کی زبانیں تک گنگ ہو جاتی ہیں، شعرا کی کیا اوقات ہے؟ یہاں تو صرف اور صرف ادب و تہذیب اور احترام کا مطالبہ ہوتا ہے ۔
وارثی صاحب! عشقِ حقیقی ، عشقِ نبوی تو دور عشقِ مجازی کو بھی آپ نے سمجھا نہیں ہے۔ میرؔ کا یہ شعر تو نظر سے گذرا ہوگا:
دور بیٹھا غبار میرؔ اس سے عشق بِن یہ ادب نہیں آتا
جناب!عشق ادب سکھاتا ہے ۔ جاں نثاری سکھلاتا ہے، بے ادبی نہیں !! صحابہ کے عشق نبوی کے سیکڑوں واقعات کتابوں اور تذکروں میں محفوظ ہیں آپ کے علم میں یہ تو ضرور ہوگا کہ :

’’حضور اقدس ﷺ کا پسینہ ہی نہیں تھوک اور بلغم بھی صحابہ کرام ؓ زمین پر گرنے نہیں دیتے تھے نعمت کی طرح اپنی ہتھیلیوں پر لے کر اپنے چہروں اور بدن پر مل لیا کرتے تھے۔ آپ ﷺ جس صحابی کی طرف متوجہ ہو جاتے وہ خود کو دنیا کا خوش قسمت ترین انسان سمجھتا تھا اور جس کی طرف سے اعراض فرماتے تو اس کی نیندیں حرام ہو جاتی تھیں۔ ہوش و حواس کھو بیٹھتا تھا اور اپنے اندر اتنی بھی ہمت نہیں پاتا تھا کہ راست اس اعراض کا سبب دریافت کر سکے۔‘‘
وارثی صاحب! آپ کس ہوا میں ہیں کہ ایسی مقدس ، مطہر و محترم ہستی کیلئے ضمیر ’’تو‘‘ کی حمایت کر رہے ہیں!! ایک بات اور آپ وارثی ہیں نا ! وارث پاکؒ کی حیات و سیرت سے واقف ہی ہوں گے کہ حضرت ؒ نے حج کے موقع پر ’’برائے ادب‘‘ اپنی جوتیاں اس خیال سے اتار دی تھیں کہ کہیں اس مقام پر نہ پڑ جائیں جہاں نبی ٔ مکرم ﷺکے قدم مبارک پڑے تھے اور تا حیات آپؒ نے جوتیاں ہی نہیں پہنیں اور آج بھی سلسلہ وارثیہ کے اکابرننگے پیر ہی رہتے ہیں اور اگر کبھی موسم کے اعتبار سے ضرورت محسوس بھی کی تو صرف ’’کھڑاؤں‘‘ پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ تعجب ہے وارثی ہو کر آپ ’’تو‘‘ جیسی بے ادبی کی حمایت پر کمربستہ ہیں۔

اس مقام پر ایک لطیف نکتے کی جانب قارئین کرام کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ ،
’’ضمیر’’تو‘‘ واحد حاضر مخاطب کیلئے استعمال کی جاتی ہے ، کیا کوئی نعت گو یہ دعوے سے کہہ سکتا ہے کہ جب وہ نعت کہتا یا کہیں سناتا ہے تو حضور ﷺ وہاں حاضر ہوتے ہیں اور خود بھی نعت سماعت فرماتے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر یہاں ضمیر واحد کا غائب استعمال ناگزیر ٹہرتا ہے اوراس کے لئے صرف ایک ہی ضمیر ہے اور وہ ہے ’’آپ‘‘ جو ضمیر اشارہ کا کام بھی دیتی ہے اور احترامِ رسالت پناہ بھی قائم رکھتی ہے۔
میں نے اپنے نعتیہ مجموعۂ کلام ’’صلو اعلیہ و آلہٖ‘‘(جو نعت رنگ لائبریری میں موجود ہے) کے پیش لفظ میں لکھا ہے :
’’آج بھی اکثر شعراء ، سیّد الثقلین،حضور نبی ٔ اکرم ﷺ کو ’’تو‘‘ سے مخاطب کرتے ہیں، میری نظر میں یہ گستاخی کی انتہا ہے۔ جس ذات پاک کو اللہ ان کے اسمِ مبارک کی بجائے یٰسین، طٰہٰ، مزّمل اور مدّثر جیسے القاب و خطابات سے یاد فرماتا ہے، ہم اس ذات کیلئے ’’تو، تیرا، تیرے‘‘ جیسے الفاظ استعمال کریں تو اس سے بڑی گستاخی اور کیا ہوگی؟ ہمیں اس طرزِ تخاطب سے ہر حال میں بچنا چاہئے اور اگر کوئی مجھ سے متفق نہ ہو تو میں یہی کہوں گا کہ وہ اپنے باپ دادا کو بھی ’’تو‘‘ سے مخاطب کیا کرے۔ وما توفیقی الا بااللہ۔‘‘




میں نے اس میں کہیں بھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ نعت میں ضمیر’’آپ‘‘ کے استعمال سے متعلق پہل میں نے کی ہے۔ ڈاکٹر صابرؔ سنبھلی صاحب نے جو کچھ اس تعلق سے فرمایا ہے وہ واقعی Communication Gap کی بنا پر ہے۔جس کا ذکر آپ نے فرمایا ہے (ص ۳۹) اس کا اعتراف ڈاکٹر صابرؔ سنبھلی صاحب بھی کریں گے، اس پر آپ کو اس قدر چراغ پا ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔
اسی طرح میں نے یہ بھی لکھا کہ:
’’آ ج کی اردو شاعری فارسی کی گرفت سے آزاد ہو چکی ہے ، اس لئے ہمیں اس طرزِ تخاطب سے بچنا چاہیئے۔‘‘
اس بیان کے تعلق سے وارثی صاحب فرماتے ہیں:
’’ یہ پیراگراف پڑھ کر افسوس ہوا، خدا جانے ڈاکٹر صاحب (اشفا ق انجمؔ) کو فارسی جیسی علم و ادب اور علوم و فنون کی پرورش کرنے والی زبان سے اتنی پرخاش کیوں ہے؟ آج ان کی فرمائش ہے کہ فارسی ضمائر سے اجتناب کرنا چاہیئے کیونکہ اس زبان میں لفظ آپ یا اس کا مترادف کوئی لفظ نہیں ہے تو کل عربی زبان پر بھی اسی بنیاد پر حملہ ہو سکتا ہے اور پھر قرآنی آیات اور احادیث کی عبارتوں پر۔ سوچ اور اندازِ فکر کی اس بے راہ روی کا ابھی سے انسداد ہونا ضروری ہے ورنہ کل یہ فتنہ ، فتنۂ انکار عربی، فارسی اور پھر فتنۂ انکارِ قرآن و حدیث کا روپ دھار سکتا ہے ۔‘‘ (ص ۴۰)

وارثی صاحب کا یہ بیان ’’ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ‘‘ کے مصداق ہے ۔ میں نے حضور ﷺ کیلئے صرف ضمیر’’تو‘‘ کے استعمال پر اعتراض کیا ہے اور جناب اسے ’’زبان فارسی اور ضمائرِ فارسی‘‘ پر منطبق کر رہے۔ کیا وارثی صاحب بتائیں گے کہ ’’تو‘‘ کے علاوہ’’من ، ما ، شما ، او، ایشان‘‘ فارسی ضمائر اردو میں کون استعمال کرتا ہے ؟ اور یہ کس طرح استعمال کی جاتی ہیں؟ کیا یہ بھی بتانے کی زحمت گوارہ فرمائیں گے کہ فی الحال پاکستان میں کتنے فارسی نعت گو شعراء ہیں، کتنے اردو شعراء فارسی سے کماحقہ واقف ہیں اور کن کن شعراء پر فارسی زبان و ادب کے گہرے اثرات ملتے ہیں ؟ (علاّمہ اقبال کے علاوہ) میں نے فیضؔ، ندیمؔ، راشدؔ، میراجی ، ناصر کاظمی، شکیب جلالی ، پروین شاکر ، جون ایلیا، افتخار عارف ، کوثرنیازی، ابن انشاء ، حفیظ تائب، عزیز خالد، احمد فراز سے لے کر عدم، فگار، شفیق الرحمن ، مشتاق یوسفی، کرنل محمد خان، منٹو، عطا الحق قاسمی وغیرہ وغیرہ وغیرہ کو پڑھا ہے ان کے یہاں فارسی ، عربی الفاظ تو ہیں لیکن فارسی ، عربی ادبی و لسّانی روایات کے اثرات نہیں ملتے ۔ مولانا ابو الکلام آزاد کے بعد عربی الفاظ کا استعمال اب اردو میں بہت کم نظر آتا ہے ۔ اِلاّ علماء دین کے !! آ ج تو عوام کی عربی دانی کا یہ حال ہے کہ فتوؤں کی عبارتیں سمجھنے کیلئے بھی علماء سے رجوع ہونا پڑتا ہے۔ ہماری بحث صرف اور صرف نعت میں حضور ﷺ کیلئے ضمیر ’’تو‘‘ کے استعمال سے متعلق تھی اس میں قرآن و حدیث کے انکار تک پہنچ جانا قطعی نامناسب بات ہے۔
ایسی ہی ایک عبارت اور ملاحظہ فرمائے، وارثی صاحب لکھتے ہیں

’’یہاں میں گفتگو کو سمیٹتے ہوئے اشارۃً یہ عرض کروں گا ، ’’ جو چھپا تھا راز دل میں وہ زباں پر آگیا ‘‘ اب اعتراض ہونے لگا ’السلام علیک یا رسول اللہ ‘‘پر۔ اس چلن میں بات وہی بتائی جا رہی ہے جو ’’تو، تیرا‘‘ میں ہے۔یہ کیسے خود کو مسلمان کہلانے والے اہلِ قلم ہیں جنہوں نے یہ اعتراض گڑھنے سے پہلے یہ نہیں سوچا کہ یہ عبارت خود سرورِ کائنات کی تعلیم فرمائی ہوئی ہے ۔‘‘ (ص ۴۱۔۴۲)
وارثی صاحب ! عرض خدمت ہے کہ ہم ’’السلام علیک یا رسول اللہ‘‘ عربی ہی عبارت میں پڑھتے ہیں اردو ترجمہ نہیں!! کہ ضمیر کا مسئلہ پیدا ہو۔ نیز اس عبارت پر نہ میں نے اور نہ ڈاکٹر صابر سنبھلی صاحب ہی نے کہیں کوئی اعتراض اُٹھایا ہے۔ 



آپ کی کم فہمی اور بد گمانی نے آپ کو اس حد تک پہنچا دیا کہ ہماری مسلمانی پر ہی وار کر بیٹھے، ہمیںاسلام سے خارج کرنے پر تل گئے، ویسے یہ تو اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ اہلِ اسلام میں جہلا تک ’’مفتیانِ دین متین‘‘ کا منصب سنبھالے بیٹھے ہیں اور جسے چاہتے ہیں اسلام سے خارج کر دیتے ہیں اس بیماری کا تو آج تک کوئی علاج دریافت نہیں ہو سکا ہے ۔ بس ہم اتنا ہی کر سکتے ہیں کہ ایسے مریضوں کے حق میں شفایابی کی دعائیں کرتے رہیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے