حضرت مولانا قسمتؔ سکندر پوری کی نعتیہ شاعری

حضرت مولانا قسمتؔ سکندر پوری کی نعتیہ شاعری

حضرت مولانا قسمتؔ سکندر پوری کی نعتیہ شاعری



دنیا میں ایک سے ایک صاحب علم وفن پیدا ہوئے اور ہوتے رہیں گے ۔ لیکن ایسی شخصیتیں جن میں متعدد خوبیاں پائی جاتی ہوں
اور مختلف علوم وفنون کے ماہر ہوں نایاب نہیں تو کم یاب ضرور ہیں ۔
ایسی ہی کم یاب شخصیتوں میں فاضل جلیل حضرت مولانا قسمتؔ سکندر پوری کا شمار ہوتا ہے جو مختلف اوصاف حمیدہ کے مظہرہیں۔
بے شمار خوبیاں ان کی ذات میں پوشیدہ ہیں۔
آپ ایک عظیم مدرس نامور خطیب ، مشہور ومعروف ردوکد شاعر اور قلم کار ہیں ۔ آپ کے کئی مجموعہ ٔ کلام منظر عام پر آکر اہل علم
وادب سے خراج تحسین وصول کر چکے ہیں ۔شاعری کے اصول وضوابط پر آپ اچھی نگاہ رکھنے کے ساتھ ساتھ ایک ماہر ِتعلیم بھی ہیں۔

حضرت مولانا قسمتؔ سکندر پوری ۱۸؍ستمبر ۱۹۶۸؁ء میں بمقام رستم پور اشرف پٹی سکندر پور ضلع امبیڈکر نگر اترپردیش میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے وطن مالوف میں حاصل کی۔ مزیدتعلیم کے لئے آپ ملک کی مشہور ومعروف درس گاہوں کے باصلاحیت اساتذہ کے آگے زانوئے ادب تہہ کیا۔ نیزدارالعلوم منظر اسلام بریلی شریف سے دیگر علوم کی تکمیل فرمائی۔
مولانا موصوف کو طالب علمی کے زمانے سے ہی تاریخی علمی و ادبی کتابوں کے مطالعہ کا شوق رہا ہے ۔ مطالعہ کی وسعت کی وجہ سے آپ کی تقریر وتحریر میں علمی ومعلوماتی نکات پائے جاتے ہیں۔ آپ دورانِ حصول تعلیم سے ہی اخبار ورسائل میں مضامین اور مراسلے لکھتے رہے اسی دوران شعر وادب کی طرف آپ راغب ہوئے۔جب آپ کی عمر ۱۳؍سال کی تھی آپ نے بارگاہ رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم میں نعت پاک لکھ کر نذرانہ عقیدت پیش کیا۔ اس کے بعد آپ نے باضابطہ شاعری کا آغاز فرمایا اور مختلف اصناف سخن پر طبع آزمائی کی ۔ جو
اخبارات ورسائل میں شائع ہو کر اہل علم وادب سے دادوتحسین حاصل کئے۔

عشق رسول ﷺ ایمان کی جان ہے ۔ اسلامی تعلیمات کی بنیاد ہے ۔ جس کے اندر عشق رسول جتنا پختہ ہوگا اس کا ایمان بھی اتنا ہی مستحکم وپائیدار ہوگا۔ بغیر عشق رسول کے ایک ایمان والا اللہ کی خوشنودی اور آخرت کی کامیابی حاصل نہیں کر سکتا۔ اس لئے بڑے بڑے
شعراء نے بھی اپنے عشق کا اظہار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں مدح سرائی کر کے اپنے قلم کی جولانیاں دکھائیں ہیں۔
اللہ کے پیارے رسول خطہ ٔ عرب میں تشریف لائے اور سب سے پہلے آپ کے پیغام حق کو قبول کرنے والے اہل ِ عرب تھے اس لئے نعتیہ شاعری کی ابتداء بھی عربی زبان میں ہوئی لیکن اس صنف پر دنیا کی تمام زبانوں میں طبع آزمائی کی گئی اور مسلمانوں کے علاوہ
غیر مسلم شعراء نے بھی نعت پاک کے اشعار کہے ۔تخلیق کاروں نے نعت گوئی میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔

شاعری کی مختلف اصناف ہیں اس میں نعت گوئی کا فن نہایت ہی مشکل اور دشوار کن ہے۔’’بقول امام احمد رضافاضل بریلوی قدس سرہ العزیز نعتیہ شاعری کرنا دو دھاری تلوار پر چلنے کے مترادف ہے۔ اگر افراط ہو گی شان الوہیت میں شرکت ہوگی اور تفریط میں توہین ِ
رسالت کا خدشہ ہے ‘‘ نعتیہ شاعری کرنے والے کو قدم قدم پر ٹھوکر کھانے کا امکان ہوتا ہے کہ شاعرکہیں افراط وتفریط کا شکار نہ ہوجائے ۔ دیگر اصناف سخن کی طرح نعتیہ شاعری میں یہ نہیں کہ شاعری کے اصول وضوابط کی پابندی کرتے ہوئے نعت شریف کے اشعار کہہ دے بلکہ نعت پاک لکھنا ایک پاکیزہ اور مقدس عمل ہے۔ جس سے شاعر کی دنیا وآخرت دونوں سنبھلتی ہے نعت پاک لکھنا،پڑھنا اور سننا عبادت میں شامل ہے ۔ نعت کے شاعرکوشاعری کے اصول کی پابندی کے ساتھ جہاں اپنے فن کا مظاہرہ کرناہوتا ہے وہیں اپنے ممدوح کی عظمت و مقام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے شاعری کرنی ہوتی ہے ۔ شاعراس ذات اقدس کی تعریف وتوصیف میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتا ہے جو وجہ تخلیق کائنات ہے ، محبوب رب العالمین ہے ۔ مالک کون ومکاں ہے صاحب جود وسخا ہے جن کی تعریف وتوصیف بیان کرنے سے قبل
بڑے بڑے شعراء کو اپنا سرنیازخم کرتے ہوئے کہناپڑا ہے کہ
ادب گا ہیست زیر آسماں ، از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید وبایزید ایں جا



ایک عاشق رسول شاعر نعت پاک لکھنے سے قبل مداحان رسول کو درس دیتا ہے۔
ہزار بار بشویم دھن ز مشک و گلاب
ہنوز نام تو گفتن کمالِ بے ادبی است
عرفی شیرازی فرماتے ہیں
عرفی مشتاب ایں رہِ نعت است نہ صحرا است
آہستہ رو کہ بردمِ تیغ است قدم را
حسان الہند امام عشق و محبت اعلیٰ حضرت فاضل بریلویؓ فرماتے ہیں۔
نعت رسول لکھنے سے قبل اپنے دل میں عشق رسول کی جتنی فراوانی ہوگی اس کی شاعری میں اتنی ہی اثر پذیری ہوگی۔ نعتیہ شاعری ہر زبان میں کی گئی اور بلا تفریق مذہب وملت لوگوں نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت ورفعت کے گن گائے۔ موجودہ دور میں مشہور ومعروف نعت گو شعراء میں حضرت مولاناقسمت سکندرپوری نام آتا ہے ۔آپ کے نعتیہ اشعار افراط وتفریط سے پاک ہیں حدود شرعیہ کی پابندی کرتے ہوئے آپ نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح سرائی کی ہے ۔ اور نعت کے عمدہ سے عمدہ اشعار کہے ہیں۔آپ اپنے ممدوح کی ہر ادا پر قربان ہونے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ۔اس لئے آپ کے اشعار میں جہاں عشق رسول کی فروانی پائی جاتی ہے



وہیں شریعت مقدسہ کی پاسداری بھی آپ نے اپنے ممدوح کی محبت میںڈوب کر نعتیہ شاعری کی ہے ۔ آپ مقام نبوت کا تذکرہ یوں کرتے ہیں۔
یہ بات سارے زمانے میں عام ہے کہ نہیں
خدا کے بعد نبی کا مقام ہے کہ نہیں
رسول پاک کے رخسار اور گیسو سے
وقارِ سلطنتِ صبح و شام ہے کہ نہیں
جسے حلال بتائیں اسے حلال کہو
جسے حرام وہ کہہ دیں وہ حرام ہے کہ نہیں
اس مضطرب اور انتشار پذیر دنیا میں اپنے دل کو قرار وسکون دینے کے لئے پیغام دیتے ہیں۔
پل بھر میں اضطراب کا خورشید ڈھل گیا
نام رسول پاک لیادل بہل گیا
اتنا ہے رب کو مرضی محبوب کا لحاظ
حالت بدل نہ پائی کہ قبلہ بدل گیا


مولانا قسمتؔ سکندر پوری نے رسول کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیارات وتصرفات کاتذکرہ اپنے اشعار میں اس طرح کرتے ہیں۔
انہیں کے واسطے دونوں جہاں ہوئے تخلیق
انہیں کے ہاتھ میں سارا نظام ہے کہ نہیں
انتہائی آسان زبان میں اپنے ممدوح کی یوں تعریف کرتے ہیں کہ۔
غم کا کشکول توڑ دیتے ہیں
لاکھ مانگو کروڑ دیتے ہیں
کام آتے ہیں رحمتِ عالم
جب سبھی ساتھ چھوڑ دیتے ہیں
نعت گو شعراء کی حوصلہ افزائی یوں کرتے ہیں ۔
جھوم اٹھے جملہ ثناخوان رسول عربی
دیکھ کر رتبۂ حسّان رسول عربی
مجرموں پر بھی برستا رہا ساون کی طرح
جیٹھ بیساکھ میں فیضان رسول عربی
مولانا قسمتؔ سکندر پوری کی نعتیہ شاعری میں جہاں زبان کی سادگی ہے وہیں زاویۂ فکر کی ندرت بھی ملتی ہے ۔
بنجر زمیں پہ نور کی برسات ہوگئی
جب خواب میں نبی سے ملاقات ہوگئی
ہونٹوں کی طشتری میں درودوں کی پنکھڑی
کتنی حسیں غلام کی سوغات ہوگئی

مذکورہ بالا چند اشعار ہی مولانا قسمتؔ سکندر پوری کی نعتیہ شاعری کی بلند پروازی کا نمونہ پیش کرنے کے لئے کافی ہیں ۔ میں مستقبل
قریب میں اور اچھے اشعار کی امید کرتا ہوں۔
از:۔ مولانا علی اعظم خاں قادری
اڈیٹر سہ ماہی ’’ حضرت بلال ‘‘ کولکاتہ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے