نعتیہ شاعری از۔ڈاکٹر بی محمد داؤد محسنؔ

نعتیہ شاعری از۔ڈاکٹر بی محمد داؤد محسنؔ


بسم اللہ الرحٰن الرحیم


نعتیہ شاعری
از۔ڈاکٹر بی محمد داؤد محسنؔ



یم۔اے،پی ہیچ ۔ڈی
پرنسپال
یس۔کے۔اے۔ہیچ ملّت پری یونیورسٹی کالج
داونگرے۔577001 (کرناٹک)
سیل
کلامِ الٰہی اور احادیث نبویؐ دواہم ذرائع ہیں جن پر عمل پیرائی نہایت ضروری ہے اور یہی حاصل زندگی اور باعث نجات بھی ہے ۔ قرانِ مجید کو ا للہ رب العزت نے انسان کی ہدایت کے لئے حضور اکرم ﷺ کے توسط سے نازل فرمایااور صاف الفاظ میں بتایا کہ ۔یاایھاالذین اٰمنو اٰمنوا باللہ ِ والکتٰب الذی نزل علیٰ رسولہِ۔ ( اے ایمان والو ایمان رکھو اللہ اور اللہ کے رسولؐ پر اور اس کتاب پر جو اپنے ان رسولؐ پر اتاری ) دراصل قرانِ کریم احکام ِ خداوندی اورفرامینِ رب العزت کی عبارتوں کا ایک ذخیرہ اور سیرتِ رسولؐ و اسوہ ٗ حسنہ اور واقعات و حوادث کا ایک حسین اوردلکش گلدستہ ہے جس کے مضامین وعظ و نصیحت پر مبنی ہیں جو ہدایاتِ انسانی کے لئے ایک نہایت موثر اور دلپذیر ذریعہ ہیں۔دینِ اسلام کا صحیح تصور اور مفہوم اگر سمجھاجاسکتا ہے تو وہ قرانِ مجید کو حضرت محمدﷺ سے اور حضرت محمدﷺ کو قرانِ مجید سے ہی ممکن ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے وَاَرْسَلْنٰکَ لِلْنّاسِ رَسُولاًً وَّ کَفیٰ بِاللّہ ِشھیدا۔ (اور اے محبوب ہم نے تمہیں سب لوگوں کے لئے رسول بھیجا اور اللہ کافی ہے گواہ ) ۔اس آیتِ کریمہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب کو رسولؐ بنا کر بھیجنے کی گواہی دے رہا ہے۔جس سے آپ ؐ کی عظمت ظاہر ہوتی ہے۔ اسی طرح قرانِ کریم میں جگہ جگہ پر اوصافِ محمدﷺ کا تذکرہ کیا گیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو یٰسین ، طٰہ ، فرقان ، مدثر ، مزمّل جیسے معزز القاب و خطابات سے یاد فرمایاہے۔آپ کی تعریف و توصیف بیان کرتے ہوئے کہیں وَماارسلنٰکَ اِلاَ رَحْمَتَ ا ِللْعاَلَِمینْ کہا تو کہیں وَمَا اَرْسَلْنٰکَ ِالاّ کَافَۃَ الِلْنّاسْ اور کہیں محمد بشر لا کالبشر یاقوت حجر لا کالحجر ( محمد ؐ بشر ہیں عام بشر نہیں یاقوت پتھر ہے عام پتھر نہیں ) کہا گیا ۔اور کہیں وَ اِنّکَ لَعَلیٰ خْلقِِ عَظِیم (اور بے شک آپؐ کے اخلاق نہایت عالی ہیں)کہاگیا۔ اسی طرح وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکْ ( اور ہم نے بلند کر دیا ہے آپ کی خاطر آپ کے ذکر کو )کہا گیا۔حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ سیدِعالم حضور اکرم ﷺ نے اس آیت کے متعلق حضرتِ جبرئیل سے دریافت فرمایا ۔جواب میں جبرئیل امین نے فرمایا۔ ’’ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آپ کے ذکر کی بلندی یہ ہے کہ جب میرا ذکر کیا جائے میرے ساتھ آپؐ کا بھی ذکر کیا جائے گا۔‘‘

حضرتِ عباس ؓ فرماتے ہیں کہ ’’ اذان میں ، تکبیر میں ، تشہد میں ، منبروں پر ،خطبوں میں اگر کوئی اللہ رب العزت کی عبادت کرے ہر بات میں اس کی تصدیق کرے اور حضرت رسول ﷺ کی رسالت کی گواہی نہ دے تو یہ سب بے کار ہے‘‘۔
اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ تمام ذکر و اذکار میں کلمہء طیبہ کے بعد افضل الذکر درودِ پاک ہے جسے جزوِ عبادت قرار دیا گیا ہے۔کلامِ پاک میں لفظ ’ عشق ‘کا استعمال نہیں ہوا البتہ ’محبت ‘کا استعمال ضرور ہوا ہے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ محبت افضل ترین شئے کا نام ہے۔دراصل یہی صفتِ کمالِ انسانی بھی ہے اور وصفِ خداوندی بھی ۔یہ وہ پاک وصفِ خاص ہے جو خود خدائے بزرگ و بر تر کو حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی ذات بابرکت سے ہے ۔ چنانچہ دیکھا جائے تو محبت کی ابتدا خوداللہ و رسولﷺ سے ہوتی ہے۔
اسی محبت کا نتیجہ ہے کہ آپؐ کا اسم پاک جب بھی آئے تودل و زبان سے بے اختیار درود کے الفاظ خود بخود جاری ہوجاتے ہیں۔

آپ ؐ کو اللہ تعالیٰ نے قرانِ پاک میں کئی مقامات پررحمت اللعالمین کے لقب سے نوازا اور آپ ؐپر درود بھی بھیجا اور آپ ؐ کی نعت و ثنا اور تعریف و توصیف بھی بیان کی۔حضرت موسیٰؑ کو کلیم کہا اور حضور اکر م ؐ کو حبیب کہا۔کلیم یعنی جو اللہ تعالیٰ سے کلام یا محبت کرے حبیب یعنی وہ جو اللہ تعالیٰ جس سے محبت کرے۔قرآنِ کریم کی کئی آیات سے یہ ثابت ہے کہ حضور اکرم ؐ کی نعت اور مدحت و ثنا بیان کرنے والا خود خدائے بزرگ و برترہے اللہ تعالیٰ نے آپ ؐ کی تعریف و توصیف ہی نہیں بیان کی بلکہ ہمارے لئیواعطی اللہ ِ و واعطی الرسولکی شرط بھی رکھی۔ توریت و انجیل میں بھی آپؐ کا ذکر کیا۔ حضرت ِ آدمؑ سے لے کر حضرت ِ عیسیٰ ؑتک کے بیشتر انبیاء و مرسلین نے آپؐ کے تقدس اور عظمت کا اعتراف کیا ، بشارت دی اور آپ کی امّت میں ہونے کی خواہش ظاہر کی ۔ طلوعِ اسلام کے فوری بعدآپ کی تعریف اور توصیف کے وصف کو صحابۂ کرام نے اپنایا اور اس کو مقصدِ حیات سمجھا۔ حضرتِ بلال ؓ نے دیدِ رسولؐ کو عبادت تصور کیا ،حضرتِ ابو بکر صدیقؓنے اپنے جان و مال کو آپ کی راہ میں لٹانے کو ایمان سمجھا ،محبتِ رسولؐ ہی کے نتیجہ میں حضرتِ عمر فاروقؓ نے ایران پر فتح حاصل کی اور عدل و انصاف قائم کیا، محبتِ رسولؐ ہی کے نتیجہ میں حضرتِ علی ؓ نے درِ خیبر اکھاڑا ،بدر و حنین کے غزوات بھی محبتِ رسول ؐ ہی کا نتیجہ ہیںحضرتِ اویس قرنیؓنے اپنے دندانِ مبارک بیک وقت نکال کر محبِ رسولؐ ہونے کا ثبوت دیااور کئی عاشقان نبیؐ نے ان گنت درود شریف لکھ کر اپنی محبت کا ثبوت پیش کیا ۔لیکن قربان جائیے اس درود پر جسے ہم درود تاج کے نام سے جانتے ہیں اور پوری عقیدت اور محبت کے ساتھ پڑھتے ہیں۔جس میں حضور اکرم ؐ کی سیرت اور عظمت کا اتنا دلکش بیان ہوا ہے جسے بار بار پڑھنے میں لطف اور مزہ آتا ہے۔ ہر ایک مومن اسے ثواب کی نیت سے پڑھتا ہے اورکافی دیر تک قلبی سکون اور اطمینان پاتاہے اور اپنے آپ خوشی محسوس کرتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے جن کو لکھنے کی سعادت بخشی انہوں نے سیرت کے خوشگوار پہلوؤں ،کمالات و معجزات اور دیگر واقعات رسول ؐ کو اپنی تحریروں کا جزو بنایا اور اسے معراجِ فن تصور کیا۔ حضرتِ سیدناحسّان ا بن ثابت ؓ کا حضوراکرمؐ کے دربار کا نعت گو شاعرہونا اس بات کی روشن دلیل ہے بحیثیتِ شاعر جو بلند مرتبہ حسّان ا بن ثابت ؓ کو نصیب ہوا وہ کسی اور کو حاصل نہیں ہوا۔کیونکہ نبی کریمﷺ خود حساّن ابن ثابت ؓ کومسجدِ نبوی ؐ کے منبر پر بٹھا کر نعت سنانے کی فرمائش کرتے اور صحابہ کے ساتھ بیٹھ کر حضرتِ سیّدناحسّان کی زبانی نعتوں کا لطف اٹھاتے حضرتِ سیدنا حسّان کا اندازِ بیان دیکھئے۔
واحسن منک لم تروقط عینی
و ا جمل منک لم تلد النساء
خلقت مبرا من کل عیب
کانک قد خلقت کما تشاء
’’ میری آنکھوں نے کبھی آپ سے زیادہ کوئی حسین نہیں دیکھا،عورتوں نے آپؐ سے زیادہ کوئی صاحب جمال نہیں جنا۔آپ کو ہر عیب سے پاک پیدا کیا گیا۔جیسے آپ اپنی سے پیدا کئے گئے ہوں۔ ‘‘


یہ بات مشہور ہے کہ سب سے پہلے نعتیہ اشعار حضرتِ ابو طالب نے کہے جو مشرف بہ اسلام نہ ہونے کے باوجود نبی کریمؐ کی ذات سے بے پناہ محبت اور عقیدت رکھتے تھے اور آپ کی عظمت کا اعتراف بھی کرتے تھے۔پہلی وحی کے نزول کی خبر سننے کے بعد حضرتِ خدیجہ ؓ نے سب سے پہلے نثر میں نعتیہ ا لفاظ بیان کئے۔ آپ کے حسنِ اخلاق سے کفاّر و مشرکین بھی متاثر تھے اور بعض کفّار عقیدت کی ڈور میںکھینچے چلے آتے تھے۔ اعشیٰ ایک کافر شاعر تھا مگر آپؐ سے بے حد متاثر تھا اس نے ایک مرتبہ نعت لکھ کر بارگاہِ نبویؐ میں پیش کرنے کی کوشش کی ،مگر کفّار ِ مکہّ نے اسے روک لیا۔
ہجرت کے موقع پر غارِ ثور سے نکلنے کے بعد پہلے دن حضوراکرمؐ اپنے غارِیار سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کے ہمراہ امّ معبدکے یہاں پہنچتے ہیں ۔جو ایک معمراور مہمان نوازخاتون تھی ۔ نبی کریم ؐ نے کھانے کے لئے کچھ پوچھا ۔اس وقت اس کے یہاں کھانے کے لئے کچھ نہ تھا۔آپؐ نے ایک گوشہ میں کمزور اور لاغر بکری دیکھی جس کے تھن سوکھ چکے تھے آپ ؐ نے اس سے دودھ دوہنے کی اجازت طلب کی۔امّ معبد نے کہا یہ تو ایک لاغر بکری ہے اوراس سے دودھ آنا محال ہے ۔ آپ ﷺ نے ایک برتن طلب کیا اور دودھ دوہنا شروع کیا اتنا دودھ آیا کہ اس سے سب سیراب ہوئے اس کے بعد آپؐ کا قافلہ وہاں سے رخصت ہوا۔نبی کریمؐ کی رخصتی کے بعد جب امّ معبد کاشوہر آیا تو اسے ایک عجیب خوشبو نے استعجاب میں ڈال دیاکہ یہاں ضرور کوئی آیا تھا اس نے اپنی بیوی سے دریافت کیاام معبدؓنے سارا ماجرا اپنے شوہر کو سنایا ۔جس میں حضور اکرم ؐ کی شبیہ ،شکل و شمائل،قد وقامت کردار و گفتار اور سیرت و صورت کی تصویر سامنے آجاتی ہے۔حضور اکرم ؐ کی اتنی اچھی تصویر ہمیں سیرت کی بڑی بڑی کتابوں میںبھی ملنا دشوار ہے جو ایک کم علم اور ان پڑھ عورت نے پیش کی ہے۔امّ معبد کا انداز بیان ملاحظہ فرمائیے۔جسے نثری نعت کا بہترین اور اعلیٰ ترین نمونہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ جوآپﷺ کی تعریف و توصیف اور ثنا خوانی کی بہترین مثال ہے ۔

ترجمہ: ’’۔۔۔۔۔۔ میں نے ایک انسان دیکھا،پاکیزہ رو ، کشادہ چہرہ ، پسندیدہ خو ، ہموار شکم ، سر میں بھرے ہوئے بال ،زیبا ، صاحبِ جمال ، آنکھیں سیاہ و فراخ ، بال لمبے اور گھنے ، آواز میں مردانگی و شیرینی ، گردن موزوں ، روشن اور چمکتے ہوئے دیدہ ، سرمگیں آنکھیں ،باریک و پیوستہ ابرو ، سیاہ گھنگریالے گیسو ، جب خاموش رہتے تو چہرہ پروقار معلوم ہوتا ، جب گفتگو فرماتے تو دل ان کی جانب کھینچتا ، دور سے دیکھو تو نور کا ٹکڑا، قریب سے دیکھو تو حسن و جمال کا آئینہ ، بات میٹھی کہ جیسے موتیوں کی لڑی ، قد نہ ایسا پست کہ کم تر نظر آئے ، نہ اتنا دراز کہ معیوب معلوم ہو ، بلکہ ایک شاخ گل ہے ، جو شاخوں کے درمیان ہو ، زپندہ نظر ، والا قدر ، ان کے ساتھی ایسے جو ہمہ وقت ان کے گرد و پیش رہتے ہیں ، جب وہ کچھ کہتے ہیں تویہ خاموش سنتے ہیں ، جب حکم دیتے ہیں تو تعمیل کے لئے جھپٹتے ہیں۔مخدوم و مطاع ، نہ کوتاہ سخن اور نہ فضول گو ۔۔۔۔۔‘‘
اس زمانے سے لے کر آج تک باقاعدہ طور پر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد حضورؐکی شان و شوکت اور عظمت بیان کرنا امّتِ مسلمہ کا اولین فریضہ ہے اور اسے زمزمہٗ روح تصور کیا جاتا ہے۔اردو کے کم و بیش تمام شعراء دیگر اصنافِ سخن پر نعت کو فوقیت دیتے ہیں کیونکہ سیرت النبیؐلکھنے اور نعت کہنے سے قلب کو ایمان اور روح کو راحت نصیب ہوتی ہے ۔
درحقیقت شاعر وہی ہے جس کا تصور و تخیّل بلند اور عظیم ہو اورعظیم شاعری وہی ہے جو اللہ اور اس کے رسولؐ کی عظمت سے متعلق ہو۔خالص اس نوعیت کی شاعری کا شرف انہیں اصحابِ فن کو نصیب ہوتا ہے جن کا دل عشقِ مصطفیٰ ؐ کے لئے دھڑکتا ہے اور جن کا قلم عظمتِ نبیؐ رقم کرنے کے لئے بے قرار رہتا ہے۔تب کہیں جاکر نعت کا حق ادا ہوسکتا ہے۔
بلغ العلی ٰ بکمالہِ کشف الدجیٰ بجمالہِ
حسنت جمیع خصالہِ صل علیہ و آ لہِ

نعت کہنے کے لئے ایمان شرط ہے اور عشق نبیؐ نہایت ضروری ہے۔ساتھ ہی خلوص و جذبۂ عقیدت بھی درکار ہے۔اس کے علاوہ پاک ذہن اور پاک طینیت ضروری ہے نعت کہنے کے لئے اپنے قلب کو منّور اور روشن کرنا ہی نہیں بلکہ عشقِ رسولؐ میں تپا کر کندن اور اپنے دل کو مدینہ بنانا پڑتاہے تب کہیں جاکر نعت ہوسکتی ہے اور حضورؐ کا فیض حاصل ہو سکتا ہے۔مثلاًً
ان کی محبت میں مجھ کو گالی ملے تب نعت ہو
فاقوں کے مارے پیٹ پر پتھر بندھیں تب نعت ہو
ہاں سر پھٹے ، سینہ چھٹے ، گردن کٹے ، تب نعت ہو
آرام کرسی پر پڑا نعتیں اگر فرماؤں گا
اس بارگاہِ خاص سے کیا فیض آخر پاؤں گا
نعت میں حضور اکرم ؐ کی شان اور مراتب کا لحاظ رکھتے ہوئے آپ کے تقدس کو برقرار رکھنا ہے۔نعت کا فن آسان نہیں ہے یہ بال سے باریک اور تلوار سے تیز پل صراط سے گذرنے کی مانندہے۔جہاں ایک چھوٹی سی لغزش ،خطا اور ایک ہلکا سا لفظ جومقامِ نبوت اور شانِ رسالت کے خلاف یا منافی ہو یا کم ہو نعت گو کو گستاخان ِر سولؐ اور منافقت کی صف میں کھڑا کر دے گا۔علاوہ ازیں ذرا سی مبالغہ آرائی بھی نعت گو کو کفر و شرک کا مرتکب بنا دے گی۔ جبکہ حمدیہ شاعری میں ہزار مبالغہ آرائی کی گنجائش ممکن ہے کیونکہ حمدیہ شاعری میں مبالغہ بھی عین حقیقت بن جاتا ہے۔مگر نعت میںتعریف و توصیفِ محمدؐ کے لئے مراتب اور حدود مقرر ہیں۔ ان حدود اور مراتب سے تجاوز کرناگویا ایمان سے خارج ہونا اور شرک و کفر کا مرتکب ہوناہے اسی لئے کہا گیا ہے کہ : باخدا دیوانہ باشدو با محمد ہوشیا ر اور یہ بھی کہ: گر فرق مراتب نہ کنی زندیق
نعتیہ شاعری کاشما رعقائد پر مبنی شاعری میں ہوتا ہے۔ جس طرح حمد اللہ تعالیٰ کی تعریف و توصیف سے عبارت ہے، اسی طرح منقبت بزرگانِ دین سے اظہارِ عقیدت کا نام ہے اورنعت مخصوص ہے حضورﷺ کی ذات سے ۔جہاں تک عقیدہ کا سوال ہے اس میں جذبہٗ لگاؤ بھی ہوتا ہے اور ایک قسم کا ڈراور خوف کا خدشہ بھی رہتا ہے اور اس میںاپنی فلاح اور نجات کا پہلو بھی پوشیدہ ہوتا ہے۔مذہبِ اسلام میں نجات کا تصور آتے ہی شافعِ محشر حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی طرف ہمارے قلب و ذہن خود بہ خود مائل ہو جاتے ہیں اور لب پر درود کا نذرانہ ہوتا ہے ، ذہن گنبدِ خضریٰ کی جانب اور دل میں ایک امنگ کا جذبہ پیدا ہوتا ہے جسے جذبہ ٔ عقیدت سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اسی عقیدت کا نتیجہ ہے کہ ہماری نعتیہ شاعری میں مبالغہ عام ہوگیا ہے۔جہاں عشق کم اورعقیدہ کی بنیاد پر محبت کا پہلو زیادہ موجود ہے۔نعت گوئی میں محبوب کے سامنے محب کی التجااس کے دل کی آئینہ دار ہوتی ہے اور ہر ایک مسلمان نبی کریمؐ سے محبت رکھتا ہے۔ ایمان کی شرط بھی عشق ِ رسول ؐ کی بنیاد پر ہی ہے۔اور ایمان کا تقاضا بھی اللہ پر ،رسولوں پر، فرشتوں پر، کتابوں پرآخرت پر مکمل یقین رکھنا ہی ہے۔ یہی یقین وایمان اور عقائد کا نتیجہ ہے کہ نعتیہ شاعری کا پلہ حمدیہ شاعری سے بھاری ہے کیونکہ۔۔۔۔۔۔
بعد از خدائے بزرگ تو ای قصہّ مختصر






دراصل نعت بھی درود ہی کی ایک شکل ہے جس میں عشق و عقیدت اور اطاعت و تسلیم کا رجحان شعری روپ اختیار کرلیتا ہے۔نعتیہ شاعری رسمی شاعری نہیں ہے۔یہاں ذاتی جذبات و تخیلات کا ہرگز عمل دخل نہیں ہوتا۔نعت کے لئے فنّی مہارت و لیاقت اور قدرت کلام سے کہیں زیادہ مقامِ نبوت کا صحیح عرفان ، عظمت ِنبوت کا سچّا وجدان ،حضور اکرم ؐ کی شان و شوکت اورعظمت، سیرت کا بھر پور علم ، توحید اور رسالت کے حدود کا لحاظ اور آپ ؐ سے سچّا عشق اور سچّی عقیدت نہایت ضروری ہے۔ مگریہاں بھی مقام اور مراتب ِ الوہیت اور نبوت کا لحاظ رکھنا از حد ضروری ہے۔عظمتِ ربوبیت اور عظمتِ نبوت سے واقفیت لازمی ہے۔نعت کے لئے خلوص وعقیدت کے ساتھ ساتھ عشق واطا عت کا ہونا شرط ہے۔ عشق اور عقیدت کے حدود بھی مقرر اور متعین ہیں۔لیکن عشق کی انتہا اور عشق کا حاصل بھی آپؐ ہی کی ذاتِ با برکت ہے۔
عشق کا حاصل ہے وہ
غیر مسلم شعراء کے یہاں بھی نعت میں عشق پایا جاتا ہے ۔لیکن یہاں سوال ایمان کا اٹھتا ہے۔ہمارے ادب میں غیر مسلم شعراء نے بھی نعتِ رسول ؐ لکھ کر عشق و عقیدت کا ثبوت دیا ہے ۔ ایک غیر مسلم شاعر کالکا پرشاد ؔکی نعت میں پایا جانے والا عشق اور عظمت مصطفیٰ ؐ کا انداز دیکھئے۔





مشرق تا مغرب تھا درہم و دینار لے کر زمین تا بہ فلک مال کا انبار
دریا سبھی بنے موتی،پارس بنے کوہسار ایک سمت کھڑے ہوں جو مرے سیدِابرار
پوچھے کوئی کالکا پرشاد سے کہ کیا لے نعلینِ کفِ پائے نبیؐ سر پہ اٹھالے
یہ عشق، یہ جذبہ ،یہ خلوص اور یہ محبت ایک غیر مسلم شاعر کے یہاں ملتا ہے جو ایمان کی دلالت کرتا ہے جو ایک مومن کے لئے ضروری ہے۔یہ جذبہ نعت کے لئے شرط اول ہے جس
سے نعت کی عظمت دوبالاہو جائے گی ورنہ زبانی خرچ اور زبانی ہمدردی اور دکھاوے کی عقیدت ہوگی۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے