، تنویر پھولؔ (امریکا

، تنویر پھولؔ (امریکا

بسم اللہ الرحمن الرحیم
برادرم غلام ربانی فدا صاحب ! السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
بھائی فیروزسیفی صاحب نے ’’جہان نعت‘‘ کا تازہ شمارہ عنایت فرمایا جسے پاکر خوشی ہوئی ۔اس امر کی طرف آپ کی توجہ درکار ہے کہ براہ کرم
پروف ریڈنگ پر خاص توجہ دیجئے جس میںاغلاط کی وجہ سے جریدے کا حسن متاثر ہورہا ہے۔ میںصرف ایک مثال پر اکتفا کروں گا،صفحہ نمبر ۳ پر
’’نعت شناس‘‘ کی جگہ ’’نعت سناش‘‘ کمپوز ہوا ہے جو پہلی نظر میں ہی کھٹکتا ہے۔ صفحہ نمبر ۲۱۰ اور صفحہ نمبر۲۱۱ پر فائز فتح پوری صاحب نے بھی کمپوزنگ
کی اغلاط کی طرف توجہ دلائی ہے جس کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے۔اس شمارے میںحمد و نعت اور مضامین کا انتخاب خوب ہے جس کے لئے آپ
اور بھائی سیفی صاحب مبارک باد کے مستحق ہیں، اللہ تعالیٰ آپ دونوںکو جزائے خیر عطا فرمائے، آمین۔
صفحہ نمبر ۱۴۲ پر ’’نقد و نظر‘‘ کے عنوان سے جو تحریر ہے اسے پڑھ کر محسوس ہوا کہ دانستہ یا نادانستہ طور پر حمد کی اہمیت کم ہوگئی ہے جو قابل تحسین
نہیں۔ یہاںیہ بات پیش نظر رہے کہ دانشوروں کے کہنے کے مطابق حمد و نعت نثر میں ہوں یا نظم میں، انھیں حمد و نعت ہی کہا جائے گا ۔
پروفیسر منظر ایوبی لکھتے ہیں ’’ حمد خوانی اور حمد گوئی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنا اس کائنات کا عدم سے وجود میں آنا۔ دور جانے کی ضرورت نہیں
صرف سرکار دوعالم ﷺ کی پیدائش کے موقع پر ان عربی کلمات پر غور کیجئے جو آپ ﷺ کی والدہ ماجدہ سیدہ آمنہ ؓ نے اپنی زبان مبارکہ سے(حلیمہ ؓ
دائی کو سپرد کرتے وقت) ادا کئے تھے کہ میں اس بچے کو خدائے ذوالجلال کی پناہ میں دیتی ہوںکہ وہ تمام آفات سے اسے محفوظ و مامون رکھے۔ اس نوع
کی ان گنت نثری و شعری حمدیں عربی ادبیات کی تاریخ کا حصہ ہیں‘‘۔
اب دیکھئے کہ قرآن پاک میں حمد بھی ہے اور نعت بھی۔قرآن کی ابتدا ہی اللہ تعالیٰ کی حمد سے ہے ۔ سورۃ الفاتحہ حمد و مناجات کا مجموعہ ہے
جسے نماز کی ہر رکعت میں پڑھنا لازمی ہے۔ قرآن میں بیشتر مقامات پر حمد کا ذکر آیا ہے اور حمد کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے مثال کے طور پر سورۃ النصر کی
آیت نمبر ۳ دیکھئے جس میں فرمایا گیا ہے ’’فسبّح بحمد ربّک‘‘ (اپنے رب کی حمد کے ساتھ اُس کی تسبیح کرو) ۔ سورۃ الضحیٰ کی آخری آیت میں حکم دیا گیا کہ
’’ اور اپنے پروردگار کی نعمتوں کا ذکر کرو‘‘ ۔ ظاہر ہے کہ پروردگار کی نعمتوں کا ذکر کرنے میں اُس کی حمد و ثنا لازمی ہے۔ سورہ توبہ آیت نمبر ۱۱۲ میں
حمد کرنے والوں یعنی ’’حامدین‘‘ کی تعریف فرمائی گئی ہے اور حضور ﷺ کے اسمائے حسنیٰ میں ایک اسم ’’حامد‘‘ ( حمد کرنے والا ) بھی ہے ۔ کچھ مترجمین
سورہ توبہ کی مذکورہ بالا آیت میں’’حامدون‘‘ کا ترجمہ ’’شکر کرنے والے‘‘ کرتے ہیں جو مناسب نہیںلگتا کیونکہ یہاں ’’شاکرون‘‘ نہیں آیا اور عربی میں
شکر کرنے والے کو ’’شاکر‘‘ کہتے ہیں۔حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی مشہور مناجات میںاُن کا یہ شعر حمدہے :
’’ انت کافی انت وافی فی مھمّات الامور ٭ انت حسبی انت ربی انت لی نعم الوکیل‘‘
حضور اکرم ﷺ کے مبارک زمانے سے لے کر آج تک عیدین اور جمعہ کے خطبوں کا آغاز حمد سے ہی ہوتا ہے کیونکہ یہ سنت رسولﷺہے۔
حمد و نعت مظہر جلال و جمال ہیں ۔ جب ہم حضور اکرم ﷺ کی تعریف و توصیف بیان کرتے ہیں تو درحقیقت ہم آپ ﷺ کے خالق اللہ
تعالیٰ کی تعریف بھی بیان کررہے ہوتے ہیں، یہ دونوں تعریفیں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتیں ؎
تعلق وہی حمد اور نعت میں ہے ٭ تعلق ہے جیسا کہ شمس و قمر میں
سب کو سلام کہئے اور ہمیشہ دعائوں میں یاد رکھئے ۔ والسلام ، تنویر پھولؔ (امریکا)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے