شش ماہی ’’جہان نعت‘‘ ایک مطالعہ
توفیق احسنؔ برکاتی کے قلم سے
![]() |
شش ماہی ’’جہان نعت‘‘ ایک مطالعہ shashmahi Jahan e Naat Ka Ek Mutalia |
شش ماہی: جہان نعت
ایڈیٹر: غلام ربانی فداؔ
صفحات:۶۶ اشاعت:جولائی تادسمبر ۲۰۱۲ء
پتہ: جہان نعت , نور احمد آئی، پوسٹ ہیرور، ہانگل، ہاویری، کرناٹک۔ 581104
حمد باری تعالیٰ اور نعت مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا شمار تقدیسی شاعری میں ہوتا ہے، حمد کا تعلق شانِ الوہیت سے ہے اور نعت شانِ رسالت مآب علیہ الصلوٰۃ والتسلیم سے اِنسلاک رکھتی ہے،اسی نکتے کے پیش نظر ان دونوں صنفوں کی اہمیت وآفاقیت سمجھ میں آجاتی ہے،ان دونوں کو الگ الگ یک موضوعی صنف سخن ضرور قرار دیا جا سکتاہے، جو کسی شعری ہیئت کے پابند نہیں ہیں لیکن شعری معنی ومفہوم حمد در نعت اور نعت در حمد کا حسین مرقع بن سکتا ہے، امام نعت گویاں امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ کا مشہور زمانہ کلام ؎
وہی رب ہے جس نے تجھ کو ہمہ تن کرم بنایا
ہمیں بھیک مانگنے کو ترا آستاں بتایا۔ تجھے حمد ہے خدایا
حمد بھی ہے اور نعت بھی۔ ایسا کیوں نہ ہو کہ ذات مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور اس سے منسلک اوصاف عالیہ وکمالات صادقہ اللہ عزوجل کی عظیم قدرت کا حسین استعارہ ہیں اور تخلیق کا عظیم شاہ کار، اس لیے اس شاہ کار تخلیق کی تعریف وتوصیف اس کے خالق کی حمد وثنا قرار دی جائے گی۔
حمد ونعت اپنے علو مرتبت اور گراں قدری کے سبب بے پناہ حزم واحتیاط اور صداقت بیانی کے متقاضی ہیں اور ان کی خدمت گزاری کا فریضہ انجام دینے والا اپنے بلند نصیبے پر جس قدر چاہے ناز کرے ۔یہ خدا کا خاص فضل ہے کہ وہ حمد نویسی اور نعت نگاری کے ذریعے اپنے قلم اور اس کی روشنائی کو پاکیزگی کا حسن عطا کر رہا ہے، حمد جہاں سنت مصطفی ہے وہیں نعت سنت خداہے گویا حمد ونعت لکھنے والا اللہ ورسول جل جلالہ وصلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل پیرا ہے۔
اتنی گفتگو کے بعد اب یہ کہا جاسکتا ہے کہ حمد ونعت میں تنقید واصلاح کی ضرورت کل بھی تھی آج بھی ہے اور آئندہ بھی باقی رہے گی تاکہ رطب ویابس سے انہیں پاک وستھرا رکھا جائے، ان کا تقدس بھی باقی رہے اور فن کا حسن بھی در آئے۔ نعت گو شعرا کے تذ کرے، ان کی کلیات کی ترتیب، متون کی شناخت، افکارکی ترسیل، تخیل کا ابلاغ یہ ساری چیزیں خدمت حمد ونعت کے زمرے میں آتی ہیں، قابل مبارک باد ہیںمحترم غلام ربانی فدا صاحب جنہوں نے بے سروسامانی کے عالم میں ’’مرکزی آل انڈیا تحریک فکر نعت‘‘کی داغ بیل ڈالی اور اس کے زیر اہتمام شش ماہی ’’جہان نعت‘‘ کا اجرا فرمایا اور بڑی پابندی کے ساتھ اس کی ترتیب واشاعت میں سرگرم عمل ہیں ۔اللہ عزوجل ان کے جذبۂ خیر کو قبول فرمائے اور ان کے عزائم میں پختگی وکامرانی عطا فرمائے، آمین۔
کراچی پاکستان سے محترم سید صبیح الدین صبیح رحمانی کے زیر ادارت شائع ہونے والا کتابی سلسلہ ’’نعت رنگ‘ ‘ نعت اور تنقید نعت کا منفرد عالمی جریدہ مانا جاتا ہے جس کے کئی شماروں کا راقم الحروف نے بلاستیعاب مطالعہ کیا اور بہت کچھ سیکھا ہے۔ محترم غلام ربانی فدا نے نعت رنگ سے متاثر ہوکر انڈیا میں جہان نعت کا اجرا کیا ہے۔ جس کا پانچواں شمارہ اس وقت ہمارے پیش نگاہ ہے۔۶۶؍ صفحات پر مشتمل یہ جریدہ اس اعتبار سے منفرد اور قابل ستائش ہے کہ اس میں جدہ سعودی عرب میں مقیم تقدیسی وروحانی شاعری کے باکمال شاعر وادیب محترم ابو الحسین وحید القادری عارفؔ کے فکر وفن پر مشتمل گوشے کی شمولیت نے چارچاند لگا دیے ہیں جس کے لیے ایڈیٹر نے سترہ صفحات مختص کیے ہیں اور صاحبِ گوشہ کے اجمالی خاکے کے ساتھ ان سے لیے گئے انٹرویو اور فکر وفن پر کئی قلم کاروں کے تحریر کردہ مقالات کو شامل کیا ہے جس میں عزیز بلگامی، سید افتخار حیدر، پروفیسر احمد اللہ خاں اور غلام ربانی فدا نے بڑی ہوش مندی اور محنت سے سید وحید القادری عارفؔ کی شخصیت اور شاعری پر اظہار خیال کیاہے، اور ان کے فکر وفن کی تحسین کی ہے اور اس کے بعد دو صفحے میں ’’رنگ مدحت‘‘ کے عنوان کے تحت صاحبِ گوشہ کا نمونۂ کلام درج کیا گیا ہے، ان کے مطالعے سے معلوم ہوتا پڑتا ہے کہ محترم وحید القادری عارفؔ نے موضوعات نعت کو بڑی ہنر مندی کے ساتھ شعر کے قالب میں ڈھالا ہے اور اظہار واسلوب بھی پختہ اختیار کیا ہے، ان کے اکثر وبیشتر اشعار میں دلوں کو متاثر کرنے کی خوبی موجود ہے جس کے لیے موصوف مبارک باد کے مستحق ہیں۔
لیکن فدا صاحب سے ایک گزارش ضرور کرنی ہے کہ جب بھی گوشہ شامل کرنا ہوتو صاحبِ گوشہ کا بھرپور تعارف ہونا چاہیے اس کا تفصیلی سوانحی خاکہ، لیاقت، اعزازات وانعامات اور بھی بہت کچھ۔ ساتھ ہی مکالمہ میں نعت اور تنقید نعت کی موجودہ صورت حال اور اس سے متعلق بنیادی نکات پر گفتگو ریکارڈ کی جائے تو مبتدی نعت گو شعرا کو بہت کچھ پڑھنے کو دیا جاسکتا ہے، اس جریدے کا ادارہ ابتدائیہ کے عنوان سے ’’نعت خوانی اور اس کے تقاضے‘‘ میں مدیر محترم نے جن نکات کو شامل بحث کیا ہے ان پر سنجیدگی سے سوچنے اور برتنے کی ضرورت ہے خصوصاً ان کا یہ کہنا کہ ’’فن تجوید وقراء ت کی طرح نعت خوانی بھی فی زمانہ ایک پاکیزہ فن کی حیثیت اختیار کرتی جارہی ہے مگر نعت خوانی کو کاروبار یادھندہ بنا لینا فن کے تقدس کو پامال کرنے کے مترادف ہے، چہ جائے کہ نعت خوانی کو وسیلۂ روزگار بنا لیا جائے۔ اور اس ضمن میں ہر وہ جائز و ناجائز طریقہ اپنا کر اس سے منافع کمانے کے حربے استعمال کیے جائیں۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ نہ فنِ نعت خوانی سے مخلص تصور کیا جاتا ہے اور نہ ہی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت وعقیدت سے سرشار گردانا جاتا ہے۔ ‘‘ (ص؍۴،۵)
گوشۂ مضامین میں ’’ہندو شعرا کا حمدیہ کلام‘‘ (غلام ربانی فدا) ہندو شعرا کا نعتیہ کلام (رضوان احمد پٹنہ) یہ دونوں مضامین تشنہ معلوم ہوتے ہیں اس موضوع کو اور وسعت دی جانی چاہیے تھی، یہاں وحید القادری عارف کا یہ شعر لکھا جاسکتا ہے ؎
یہ اعجازِ نگارِ شاہ کارِ دستِ قدرت ہے
کہ بے مدح نبی دشمن کو بھی رہنے نہیں دیتے
دیگر مضامین میں سید ریاض حسین شاہ کا ’’نعت کیا ہے؟‘‘ جسیم الدین شرر کا ’’چند الفاظ واصطلاحات کی تشریح‘‘ ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی کا ’’ادب میں وابستگی کا قرآنی تصور‘‘ فیروز بخت احمد کا ’’اردو زبان کا معتبر شاعر ابرار کرتپوری‘‘ ڈاکٹر رضوان احمد کا ’’فیاض ٹاندوی بحیثیت نعت گو‘‘ اور ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی کا ’’رحمت الٰہی برق اعظمی کے شاعرانہ کمالات‘‘ شامل جریدہ ہے اور چند ایک کو چھوڑ کر باقی مضامین اپنے موضو پر بھرپور اور قابل مطالعہ ہیں البتہ چند جگہوں پر ضرور قلم رکھنے کی گنجائش باقی رہ گئی ہے، شاید مدیر موصوف نے انہیں کم توجہ سے پڑھا ہے یا ان کی شمولیت وبقا کا جواز ترقی یافتہ کشادہ ظرفی ہے یا اس کی وجہ وہ ہے جو صبیح رحمانی نعت رنگ کے صفحات میں پیش کرتے ہیں کہ ’’نعت رنگ کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ ہم نعت پر ہونے والی گفتگو اور اس ضمن میں چھڑنے والے مباحث کو امت مسلمہ کے مختلف مکاتیب فکر اور مسلک سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان مکالمہ بنا سکیں۔‘‘ (ابتدائیہ: نعت رنگ، شمارہ؍ ۲۲، کراچی، ص؍۱۶)
صرف ایک مثال پڑھ لیں: مفتی جسیم الدین شرر، بنگلور نے اپنے مضمون ’’چند الفاظ واصطلاحات کی تشریح‘‘ میں علی میاں ندوی کو جن کا نام عبد العلی ہے ’’نور اللہ مرقدہ کے ذریعے خراج تحسین پیش کیا ہے (ص؍۱۵) یہ وسیع المشربی راقم کی سمجھ سے بالا تر ہے۔ اس جریدے کے متنوع کالموں میں ’’نعت کائنات، مطالعات نعت، اخبار نعت اور نعت نامے‘‘ جدت بھر تجربہ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔’’نعت کائنات‘‘ میں متعدد شعرا کے نعتیہ کلام کو جگہ دی گئی ہے جن میں ڈاکٹر یوسف صابر، ضیا نّیر، سید محمود قادری، مظفر وارثی، سید وحید قادری عارف، عبد الماجد دریابادی، ڈاکٹر راہی فدائی، عذرا ملک، پروفیسر محمد اکرم رضا، خواجہ عبد المنان راز، مدنی میاںاختر کچھوچھوی، عزیز بلگامی اور احمد علی برقی اعظمی کے اسما قابل ذکر ہیں۔ ’’مطالعات نعت‘‘ کے تحت مدیر نے ڈاکٹر سراج احمد قادری کی کتاب ’’شمائم النعت‘‘ اور ریاض احمد خمار کے نعتیہ مجموعہ ’’سرحد یقین کی‘‘ کا حاصل مطالعہ لکھا ہے اور ڈاکٹر محمد حسین مشاہد رضوی نے غلام ربانی فدا کے نعتیہ مجموعے ’’گل زار نعت‘‘ کا تنقیدی مطالعہ پیش کیا ہے۔ محترم غلام ربانی فدا کی جانب سے پیش کیا جانے والا حمدونعت کا معیاری ادبی مجلہ ’’جہان نعت‘‘ ہم ہندوستانیوں کے لیے ایک نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں، ضرورت ہے کہ اسے اور معیاری اور ادبی بنایا جائے، ترتیب وطباعت پر خاص دھیان دیا جائے تو وہ دن دور نہیں جب یہ ہندوستان کا دوسرا ’’نعت رنگ‘‘ بن جائے گا۔ قارئین یہ خوش خبری بھی پڑھ لیں کہ جہان نعت کا ویب ایڈیشن بھی شروع ہوچکا ہے جس کے لیے درج ذیل ویب سائٹ وزٹ کریں۔
n n
0 تبصرے