شاہانِ دکن کی نعتیہ شاعری

شاہانِ دکن کی نعتیہ شاعری

شاہانِ دکن کی نعتیہ شاعری


ڈاکٹر محمدنسیم الدین فریس

دکن کی تاریخ میں یوں تو بہت سے مسلمان سلاطین گزرے ہیں لیکن ان میں چند ہی ایسے ہیں جنھیں ’’صاحب السیف والقلم‘‘ کہنا زیب دیتا ہے۔ یہ سلاطین نہ صرف اقطاعِ دکن کے حکمران تھے بلکہ ملک سخن کی زمینوں کے بھی بادشاہ تھے۔ انھوںنے جہاں تاج و سریر کی زینت بڑھائی وہیں اپنی خوش فکری اور نغزگوئی سے ایوان شاعری کی شان و شوکت میں بھی اضافہ کیا۔
قسام اقم نے ان فرمانروائوں کو ملک و سلطنت کے ساتھ ذوق تخلیق اور شاعرانہ فکر و وجدان سے بھی بہرۂ وافر عطا فرمایا تھا۔ ان میں بعض بادشاہوں نے قدیم اُردو یا دکنی میں شاعری کی، بعض نے فارسی زبان کو شعری و تخلیقی اظہار کا وسیلہ بنایا اور بعضوں نے اُردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شاعری کی۔ خوش قسمتی سے ان سب حکمرانوں کا کلام محفوظ ہے اور ایک آدھ کے استثنا سے قطع نظر سب کا کلام طبع بھی ہوچکا ہے۔ جیسے کلیات محمد قلی قطب شاہ، کلیات عبداللہ قطب شاہ، کلیات علی عادل شاہ ثانی وغیرہ۔
شاہان دکن کی شاعری کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ انھوںنے مختلف اصنافِ سخن میں
طبع آزمائی کی جیسے گیت، غزل، قصیدہ، مثنوی، مرثیہ اور رباعی وغیرہ۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ ان ارباب ملک و کلام نے دیگر اصنافِ شاعری کے ساتھ نہایت عقیدت و نیاز مندی کے ساتھ نعتیں بھی لکھیں اور پیغمبرِ اسلام آںحضرتﷺ کی مدح و توصیف کے ذریعہ اپنی شاعری میں وزن و وقار پیدا کیا اور نعت کے وسیلے سے کلام الملوک کو ملوک الکلام بنانے کی کوشش کی۔ حبِّ رسولﷺ مسلمانوں کے لیے خواہ  امیر ہو کہ وزیر بادشاہ ہو کہ فقیر شرطِ ایمان ہے اس سے کوئی صاحب ایمان بری نہیں ہوسکتا۔
عام مسلمانوں کی طرح شاہانِ دکن بھی حضور رسالت مآبﷺ کی ذاتِ گرامی سے نہایت گہری وابستگی، عقیدت اور محبت رکھتے تھے جس کا اظہار ان کی نعتیہ شاعری میں ہوا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ شہنشاہِ عرب و عجم حضرت محمدمصطفیﷺ کی بارگاہِ آسماں جناب میں شاہانِ دکن نے کس طرح خراجِ مدحت اور نذرانۂ عقیدت پیش کیا ہے۔
اہل شمال کے تسلط سے آزاد دکن کی پہلی خودمختار مسلم سلطنت بہمنی خاندان کی ہے۔ اس خاندان کے بعض فرمان روا مثلاً سلطان محمد ثانی بن علائوالدین بہمنی (۷۹۹ء۔۷۸۰ء) اور سلطان فیروز شاہ بہمنی (۸۲۵ء۔۸۸۰ء) اچھے شاعر تھے لیکن ان کے دستیاب کلام میں نعت یا نعتیہ اشعار نہیں ہیں۔٭۱  بہمنی سلطنت کے زوال کے بعد دکن میں پانچ خودمختار سلطنتیں قائم ہوگئیں جن میں بیجاپور کی عادل شاہی اور گولکنڈہ کی قطب شاہی سلطنت کے بعض حکمران شاعری سے علاقہ رکھتے تھے۔ عادل شاہی خاندان کا بانی یوسف عادل شاہ (۲۱۶ء۔۸۴۱ء) فارسی زبان میں شعر گوئی کرتا تھا۔ میر سعادت علی رضوی نے اپنی کتاب ’’کلام الملوک‘‘ میں اس کی کچھ فارسی غزلیات اور رباعیات پیش کی ہیں لیکن ان میں نعتیہ اشعار نہیں ہیں۔ یوسف عادل شاہ کا فرزند اسماعیل عادل شاہ (۹۴۱ء۔۹۰۳ء) بھی فارسی کا اچھا شاعر تھا۔ وفائی تخلص کرتا تھا۔ کلام الملوک میں اس کا کلام درج ہے لیکن اس میں کوئی شعر نعتیہ نہیں ہے۔
نعتیہ شاعری کے حوالے سے سلاطین دکن میں سب سے پہلے ابراہیم عادل شاہ ثانی کا نام آتا ہے۔ ابراہیم عادل شاہ ثانی، عادل شاہی خاندان کا چھٹا حکمران تھا، اس نے ۹۸۸ء سے ۱۰۳۸ھ تک نہایت شان و شوکت کے ساتھ بیجاپور پر حکومت کی۔٭۲ اس کے عہد حکومت کو بیجاپور کا سنہری دور کہا جاسکتا ہے۔ ابراہیم نے علوم و فنون کی بڑی سرپرستی کی۔ اس کا دربار علما و فضلا اور مختلف فنون کے اہل کمال کا مرکز بن گیا۔ ابراہیم کی دو دلچسپیاں تھیں ایک موسیقی اور دوسری شاعری۔ موسیقی میں وہ اپنے عہد کا سربلند ماہر مانا جاتا تھا جس کی وجہ سے وہ ’’جگت گرو‘‘ کے لقب سے ملقب ہوا۔٭۳ اس نے مختلف راگ راگنیوں پر مبنی گیتوں کا ایک مجموعہ مرتب کیا اور اس کا نام ’’کتاب نورس‘‘ رکھا۔
’’کتاب نورس‘‘ کے پہلے گیت میں جو ’’درمقام بھوپالی‘‘ ہے ابراہیم نے نبی کریم کی مدحت اور خواجہ بندہ نواز گیسو درازؒ کی منقبت لکھی ہے۔ ابراہیم کو حضرت گیسودرازؒ سے بڑی عقیدت تھی۔ اس لیے اس نے خواجہ صاحب کے وسیلے سے اپنی عرض داشت پیش کی ہے۔ اس نعتیہ گیت کے آغاز میں وہ کہتا ہے کہ ’’اے اللہ کے رسول آپ سارے عالم کے ہادی اور آقا ہیں۔ آپ کی بارگاہ، مقناطیس اورمیرا دل لوہا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح لوہا مقناطیس کی طرف مائل ہوتا ہے اسی طرح میرا دل بھی آپ کے روضے کی طرف کھینچا جاتا ہے۔‘‘
حضرت محمد جگت ترگر گسائیں
تو درگہ چمک میر و من سار
گیت کے انترے میں آںحضرتﷺ کے اوصاف بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ترلوک (ہندو مذہب کے مطابق تین عالم) آپ کا نام جپتے ہیں اور من کی مراد پاتے ہیں۔ آپ نرالی شان والے مہاپیر (ولیوں کے سردار)، ضعیفوں کے مددگار اور نبی برحق ہیں۔
ترلوک جپت تونانو پاویں پران کی پران
اچرج مہاپیر، ابلابلی، تو نہیں سانچو اوتار
گیت کے مقطع یا اَبھوگ میں کہتا ہے کوئی گھوڑے ہاتھی کا طالب ہے تو کوئی ہیرے کا گہنا مانگتا ہے۔ کوئی کھانا اور کپڑا چاہتا ہے تو کوئی بڑے مکان کا متمنی ہے۔ ابراہیم کی آرزو بہتر علم اور خیر خیرات (کی توفیق) ہے، اے خالقِ کریم سیّد محمد کے وسیلے سے اس کی یہ مراد پوری فرما۔
کو و چاہے ماتنگ، تکھار، کو و رتن مال
کو و بھوجن واسہ کو ودھا مان دھلار
ابراہیم چاہے اتم بدیا دان دھرم
سیّد محمد کی دہائی کریم کر تار٭۴
ابراہیم عادل شاہ ثانی کے اس نعتیہ گیت میں چار اسما محمد، سیّد محمد، ابراہیم اور کریم عربی ہیں، دو اسما ’’درگہ‘‘ اور ’’پیر‘‘ فارسی ہیں۔ باقی سارے الفاظ اودھی، برج، راجستھانی یا سنسکرت زبانوں کے ہیں۔ اس نعت میں بھجن اور بھکتی گیتوں کی فضا کا احساس ہوتا ہے۔ ابراہیم نے آںحضرتﷺ کو ’’اوتار‘‘ کہا ہے۔ ہندوئوں میں ’اوتار‘ کا ایک خاص تصور ہے اس لیے آںحضرتﷺ کو ’’اوتار‘‘ نہیں کہنا چاہیے۔ تاہم گیت میں جذبے کی صداقت اور سچی عقیدت مندی کارفرما نظر آتی ہے۔ سوال کا قرینہ خوب ہے اور جو مانگا گیا وہ بہت خوب ہے۔ کیونکہ جس کو اعلیٰ علم حاصل ہوگا اسے لازماً عزت ملے گی اور دن دھرم جس کا مقدر ہو اسے دولت ضرور ملے گی، کیوںکہ دولت کے بغیر خیر خیرات کے کام کیوںکر ہوسکتے ہیں۔ عام لوگ مال و دولت کے طالب ہوتے ہیں لیکن یہ چیزیں ابراہیم کو ورثے میں ملی تھی، البتہ وہ چیزیں جو ورثے میں نہیں مل سکتیں یعنی علم اور خیر خیرات ان کے لیے ابراہیم نے دُعا مانگی ہے۔
عادل شاہی خاندان کا آٹھواں بادشاہ سلطان علی عادل شاہ ثانی بھی ایک پختہ مشق سخنور تھا۔ وہ شاہی تخلص کرتا تھا۔ اس نے ۱۰۶۷ء سے ۱۰۸۳ء تک بیجاپور پر حکومت کی۔ ’’کلیاتِ شاہی‘‘ کے مرتب سید مبارزالدین رفعت ارقام طراز ہیں:
’’اپنے دادا ابراہیم عادل شاہ ثانی کی طرح سلطان علی عادل شاہ ثانی موسیقی کا شیدائی اور اس کا بڑا ماہر تھا۔ عربی فارسی اور اُردو کے علاوہ غالباً سنسکرت سے بھی واقف تھا۔ بڑا رنگین مزاج اور رند مشرب آدمی تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ نہایت خوش اعتقاد بھی واقع ہوا تھا۔ امامیہ مذہب کا پیرو تھا اور رسول اللہﷺ اور دوازدہ اماموں سے گہری عقیدت رکھتا تھا۔ اس کے کلام کا قابل لحاظ حصہ حمد، نعت، منقبت، مرثیہ اور بزرگانِ دین کی مدح میں ہے اور یہ اس کی خوشی اعتقادی اور گہری مذہبیت پر دال ہے۔٭۵
شاہی نے مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی۔ اس کی کلیات میں قصیدے، مثنویات، غزلیں، مخمس، رباعیاں، فردیات، گیت، کبت، دوہے اور تاریخی قطعات موجود ہیں۔ ’’کلیاتِ شاہی‘‘ میں چھ قصیدے ہیں ان میں پہلا قصیدہ حمدیہ ہے اور دوسرا نعتیہ۔ نعتیہ قصیدہ پچاس اشعار پرمشتمل ہے یہ قصیدہ چرخیہ ہے۔ قدیم دکنی میں قصیدے کی ایک قسم ’’چرخیات‘‘ سے موسوم کی گئی ہے۔ یہ وہ قصائد ہیں جن کی تشبیب فلکیات سے متعلق ہوتی ہے۔٭۶ یعنی شاعر اس میں آسمان سے متعلق الفاظ، اشارات اور اصطلاحات ’اجرام سماوی‘ کے نام اور اسمائے بروج وغیرہ کا ذکر کرتا ہے۔ شاہی نے اپنے نعتیہ قصیدے کی تشبیب میں چرخیات کی رعایت رکھی ہے جس کی وجہ سے اس میں ایک خاص فنی خوبی پیدا ہوگئی ہے۔
آں حضرتﷺ کی ذاتِ اطہر سے تقدس، پاکیزگی، روحانیت اور نورانیت کی اعلیٰ ترین رفعتیں وابستہ ہیں اس لیے آپ کی شان میں کہے گئے قصیدے کی ابتدا آسمان کی بلندیوں سے ہو تو یہ تمہید آپ کے مقامات مدارج اور فضائل و شمائل کی رفعتوں کا اشارہ بن جاتی ہے جس سے قصیدے کا معنوی حسن دوبالا ہوتا ہے۔ شاہی کے قصیدے میں آںحضرتﷺ کے علوے مرتبت کی مناسبت سے چرخیہ تشبیب نہایت بامعنی پس منظر اور روشن و منور فضا کی تخلیق کرتی ہے۔ آسمان کی رونقوں کا نقشہ کھینچتے ہوئے شاہی کہتا ہے ’’سورج نے دولہا بن کر آسمان کی بلندی کو زینت دی اور چاند تاروں کو بلانے کے لیے بسنت کا گھر بنایا، اس نے ہاالے کا زیور گلے میں پہنا اور ثریا کا سہرا سر پر باندھا۔ شعریٰ (ایک ستارہ) اس کے کنگن کا ہیرا بنا، ہوا مانجھے کا پردا بنی(مانجھے کے دوران دولہا/ دلہن کو پردے میں بٹھانے کی رسم تھی) اس پر ستاروں کا منڈپ تانا گیا۔ مشتری نے مشاطہ بن کر سورج کو ہلدی لگائی۔ سارے باراتی  بلائے گئے ہیں سورج زر کا لباس پہن کر دولہا بنا آیا ہے۔ زمین پر پانی سے لبریز حوض نہیں ہیں بلکہ آئینے ہیں جو سورج نے چاند کا منہ دکھانے کے لیے لگائے ہیں‘‘
دیکھو نو روز چنچل یو بہارستاں دکھایا ہے
بَرک بن پھل و پھولاں تیں پوَن کے ہت کھلایا ہے
سرج کے اوج کی کرسی سنوار یا دول ہو دنکر
چندر تارے بلانے گھر بسنت سارا بنایا ہے
کھلالے ہانس گل ڈالیا ثریا کا بندھیا سہرا
کنگن ہیرا ہوا شعریٰ لگن اپنا گنایا ہے
ہواپر دا مَنجے کاکر ستاریاں کا تگٹ تس پر
مشاطہ مشتری ہوکر ہَلَد سورِج لگایا ہے
براتی سب بلایا ہے شرف اپنا دکھایا ہے
زری کسوت سراپا کر سورِج نوشو ہو آیا ہے
اودک جل تھل بھرے حوضاں نہیں ہے جانو بھومی پر
چندر کا مکھ دکھانے تئیں سُرِج ارسیاں منگایا ہے
اس تشبیب کا دوسرا حصہ بہاریہ ہے۔ اس میں شاہی نے مناظر فطرت کے حسن کا نقشا کھینچا ہے۔ یہاں چنبیلی، بنفشہ، مدن مان اور یاسمین کی عطربیزی ہے۔ کنول اور نرگس کا حسن ہے۔ پھولوں پر منڈلاتے بھونرے اور بھوجنگ (سانپ) ہیں۔ پپیہے کی پی ہو، اور کبوتر کی غٹرغوں کی صدائیں ہیں۔ کہیں تو پیلک کا پیلا رنگ بسنت کا پتہ دے رہا ہے۔ کہیں سرو کے درخت اور انگور کی بیلیں جھوم رہی ہیں تو کہیں چنپے کی جھاڑیاں اور نارنج کی ڈالیاں لچکتی نظر آتی ہیں۔ خوب صورت تشبیہات، حسن تعلیل، رعایت لفظی اور ندرت فکر کی بدولت تشبیب کے یہ اشعار نہایت جاندار اور اثرآفریں ہوگئے ہیں۔
بنفشہ باس کے دعوے عروسی لیکے نت بیٹھی
نزاکت دیکھنے اس کی نین نرگس کھلایا ہے
بندھے پیلک پتنبرلے بسنت کے کاج میں ملنے
کبوتر برہ تئیں کوکے پیہا دھن سنایا ہے
چنبے کے جھاڑ کی خوبی دساوے نین میں یوں ہو
مگر شجر زمرد کا کنچن سوں بار آیا ہے
ہرے پاتاںمنے ڈالیاںدسیںنارنج کی مج یوں
تُرن سندر کے جوبن پر سبز والا اوڑھایا ہے
اس نعتیہ قصیدے کی گریز میں شاہی نے فنی بصیرت اور جدت طبع کا مظاہرہ کیا ہے۔ گریز کیا اشعار نہایت بے ساختہ اور برجستہ ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بات سے بات نکل آئی ہے۔ بہار کی رونق کا نقشہ کھینچتے ہوئے شاہی کہتا ہے کہ چمن میں لالہ اپنے سرخ رنگ پر لاف زن ہے تو اس کے مقابلے میں انار اپنا دل چیر کر دکھا رہا ہے کہ سرخی اسے کہتے ہیں۔ اسی طرح جب گلاب نے سمن کے مقابلے میں اپنی خوبصورتی اور برتری کا دعویٰ کیا تو باغ کے مالی نے اُسے ٹوکا کہ ایسا دعویٰ نہ کر کہ برتری اور فضیلت تو اس ہستی کے نام سے وابستہ ہے، گلاب پوچھتا ہے ’’بڑا ہے نانوں سو کس کا‘‘ مالی جواب دیتا ہے ’’وہ اِسم محمد کا جنے دیں اَپ نپایا ہے‘‘ اس گریز کے بعد شاہی نے آںحضرتﷺ کی مدحت و توصیف بیان کی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ خالق نے ترلوک (تینوں عالم) میں آپ کا مثل پیدا نہیں کیا۔ آپ کے عشق میں حق نے یہ کائنات بنائی۔ آپ کی ذات شریعت اور حقیقت کی رہنما ہے۔ جو آپ کے راستے سے انحراف کرے گا وہ گمراہ ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے راز رکھنے کے لیے آپ کے سینہ مبارک کو مصفٰی کیا اور ازل سے آپ کو علم دانی و سخن فہمی سکھائی۔
محمد سا نہیں پیدا کیا کرتارِ تِرجگ میں
اسی کے عشق نے سونسار تر جگ کا بھرایا ہے
شریعت کا ہے مسطرتوں حقیقت کا ہے مظہرتوں
ترے بن جو چلے گا راہ گمراہ ان کہوایا ہے
صفا سینہ کیا تیرا اپس کے راز رکھنے تئیں
علم دانی سخن فہمی ازل تیں تج سکھایا ہے
واقعہ معراج نعتیہ شاعری کا ایک اہم موضوع ہے، شاہی اس قصیدے میں معراج کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے ’’وہ رات محبت اور خوشی کی پیاری رات تھی جب حق تعالیٰ نے محبت سے آپ کو آسمانوں پر بلایا جب آپ رب سے ملنے گئے تو زمین کے فاصلے سمٹ گئے اور آپ ایک پل میں فرش سے آسمانِ دنیا تک جاکر واپس آگئے، آپ کو ذاتِ حق نے اس مقام کی سیر کرائی جہاں فرشتوں کو بار نہ تھا اور آپ کی شریعت کو حشر تک قائم کردیا۔‘‘
انند کی بات تھی ساری محبت رات کی پیاری
پرت کا شرط کرنے تیں پیارا گھر بلایا ہے
چلیا توں رب سوں جا ملنے زمین طے ہوئی ترے چلنے
ہوا معراج یک پل میں عرش پرتج لجایا ہے
فرشتیاں کا نہ تھا پھیراں تداں تھا نور سوتیرا
تیرے احکام محشر لگ جگت کے سر چڑھایا ہے
شاہی نے اس قصیدے میںبعض بے اصل روایات بھی نظم کی ہیںجوعام طورپر میلادناموں میں بیان کی جاتی ہیں۔ جیسے آںحضرتﷺ کی ولادت پر طاقِ کسریٰ کے کنگروں کا جھڑنا اور فارس کے آتش کدوں کا ٹھنڈا ہونا وغیرہ۔ شاہی نے یہ نعتیہ قصیدہ بڑی عقیدت و احترام سے لکھا ہے۔ وہ خود بادشاہِ وقت تھا اس لیے اس نے یہ قصیدہ کسی مادی صلے و ستائش کی چاہ میں نہیں تھا بلکہ جناب رسالت مآبﷺ سے روحانی وابستگی اور جذباتی لگائو نے اس سے یہ نعتیہ قصیدہ لکھوایا ہے۔ چوںکہ اس کے محرکات مادیت کے بجائے اخلاص پر مبنی ہیں اس لیے اس میں گہری معنویت، ندرت خیال، شدتِ جذبات اور رفعتِ فکر کے ساتھ ساتھ زورِ بیان، روانی اور بے ساختگی بھی پیدا ہوگئی ہے۔ صنائع و بدائع کا حسن اس پر مستزاد ہے۔ شاہی کو بھی اپنے نعتیہ قصیدے کے فنی محاسن اور شعریاتی جمال کا خوب ادراک تھا۔ وہ کہتا ہے ’’میںنے ذہانت کے چائو سے مضامین کے موتی اس میں باندھے ہیں اور تمام قصیدوں میں اس قصیدے کو نہایت مرصع کیا ہے۔‘‘
مضامین کے بھریا موتی چترپن کے لئی چؤسیتی
قصیدیاں میں مرصع کر قصیدہ یو بنایا ہے
’’کلیاتِ شاہی‘‘ میں قصیدہ درمدح حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور مثنوی خیبرنامہ میں بھی ایک ایک نعتیہ شعر ملتا ہے۔
دکن میں گولکنڈہ کی قطب شاہی سلطنت بیجاپور کی عادل شاہی مملکت کی ہم عصر اور ہر اعتبار سے اس کی ہم پلّہ تھی۔ قطب شاہی سلاطین بھی شعر و ادب کا ستھرا ذوق رکھتے تھے۔ انھوںنے اپنی سلطنت میں علوم و فنون اور تہذیب و تمدن کی بڑی آبیاری کی۔ اس خاندان کے بعض حکمران خود بھی دادسخن دیا کرتے تھے۔ ان میں پہلا نام جمشید قطب شاہ کا جس نے ۹۵۰ء سے ۹۵۷ء تک گولکنڈہ پر حکمرانی کی۔ یہ فارسی میں شعر کہتا تھا۔ میر سعادت علی رضوی نے اپنی کتاب ’’کلام الملوک‘‘ میں جمشید کی ایک نظم، سیّدنا علی کرم اللہ وجہہ کی منقبت میں ایک قصیدہ، چار غزلیں اور کچھ فردیات جمع کی ہیں۔ نظر کا آخری شعر نعتیہ ہے۔ نظم کا سبب تصنیف یوں ہے کہ ایک مرتبہ وہ برہان نظام الملک والی بیدر سے ملاقات کو گیا اور اسے تحائف و ہدایات پیش کیے، نظام الملک نے اسے چترشاہی، آفتاب گیری اور خطاب سے نوازنا چاہا لیکن جمشید نے اسے قبول نہیں کیا اور فی البدیہہ ایک نظم لکھ بھیجی جس میں وہ کہتا ہے کہ ’’دکن کے تمام بادشاہوں نے میدان جنگ میں مردانگی اور دانشمندی کا مظاہرہ کرکے چترشاہی حاصل کیا۔ میں اس وقت چترشاہی قول کروںگا جب رسول اللہﷺ کی مدد سے دشمن کو شکست دے کر اس سے چترشاہی چھین لوں۔
من آنگہ کنم چترشاہی قبول
کہ گیرم زد شمن بہ عون رسول
جمشید کے دستیاب کلام میں جو نہایت مختصر ہے صرف یہی ایک نعتیہ شعر ہے جس میں آںحضرتﷺ کا ذکر ہے۔ ممکن ہے اس نے اور بھی نعتیہ اشعار کہے ہوں لیکن یہ دستیاب نہیں ہیں۔
قطب شاہی خاندان کا پانچواں فرمانروا سلطان محمد قلی قطب شاہ ایک قادرالکلام، پرگو اور خوش بیان شاعر تھا۔ تاریخ دکن اور اُردو ادب کی تاریخ میں اسے کئی امتیازات حاصل ہیں۔ محمد قلی قطب شاہ (۹۸۸ء تا ۱۰۲۰ء) شہر حیدرآباد کا بانی اور چارمینار کا موسس تھا۔ اسے تعمیرات، چمن بندی اور فنون لطیفہ  سے بڑی دلچسپی تھی۔ روم و شام اور عرب و عجم کے متعدد علما و فضلا اس کے دربار میں جمع تھے۔ اس نے شاعروں اور ادیبوں کی بڑی قدردانی اور حوصلہ افزائی کی۔ وہ فارسی اور اُردو میں شعر کہتاتھا۔اسے اُردو کے پہلے صاحب دیوان شاعرہونے کا اعزازحاصل ہے۔ اس کی کلیات اصناف و موضوعات کے تنوع کے اعتبار سے بھی اپنی نظیر آپ ہے۔ دکن کے نعت گو بادشاہوں میں سب سے زیادہ نعتیہ کلام محمد قلی قطب شاہ کی کلیات ہی میں ملتا ہے۔ محمد قلی کی نعتیہ شاعری کے دو نمایاں وصف ہیں۔ ایک موضوعات کی کثرت سے دوسرے اصناف کا تنوع۔ اس نے غزل، نظم، قصیدہ، رُباعی جیسی معروف اصناف کے علاوہ چہار در چہار جیسی غیرمعروف صنف سخن میں بھی نعت کہی۔ ڈاکٹر ریاض مجید رقم طراز ہیں:
اُردو نعت کے اوّلین، اہم، بہ کثرت اور قابل ذکر نمونے انھیں کے کلیات میں نظر آتے ہیں۔ اگرچہ ان سے پہلے نظامی اور دوسرے شعرا کے ہاں بھی نعتیہ عناصر ملتے ہیں مگر ان کے ہاں نعت نگاری کی ذیلی حیثیت ہے اور اصل مقصد قصہ گوئی (مثنوی) ہے۔ اُردو نعت کی تاریخ میں یہ شرف (محمد) قلی قطب شاہ کو حاصل ہے کہ انھوںنے نعت کو ایک جداگانہ موضوع کے طور پر برتا۔ غزل کی ہیئت میں سب سے پہلے انھوںنے ہی نعت لکھی۔٭۷
محمد قلی کی کلیات میں چار نعتیہ غزلیں ملتی ہیں۔ ڈاکٹر ریاض مجید مصنف ’’اُردو میں
نعت گوئی‘‘ اور ڈاکٹر محمد اسماعیل آزاد فتح پوری مصنف ’’اُردو شاعری میں نعت‘‘ دونوں نے کلیاتِ محمد قلی قطب شاہ میں نعتیہ غزلوں کی تعداد پانچ بتائی ہے۔٭۸  لیکن صحیح تعداد چار ہی ہے کیوںکہ ان میں ایک غزل نعتیہ نہیں ہے جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔ نعتیہ غزلوں کے مطالع درج ذیل ہیں:
(۱)
تج مکھ اجت کی جوت تھے عالم دیپن ہارا ہوا

تج دین تھے اسلام لے موہن جگت سارا ہوا
(۲)
اسم محمد تھے اہے جگ میں سو خاقانی مجھے

بندہ نبی کا جم رہے سُہتی ہے سلطانی مجھے
(۳)
دیا بندہ کو حق نبی کا خطاب

حکم دے دیا نور جوں آفتاب
(۴)
خدا منج مہرسوں آپی نبی صدقے کیا رافع

منجے تخت سلیماں جوں وہی آپی دیا رفع
محمد قلی نے پہلی نعتیہ غزل میں جناب رسالت مآبﷺ کی مدح کرتے ہوئے نہایت
خوب صورت اور تازہ کار تشبہیات استعمال کی ہیں۔ مضامین بھی نئے اور انوکھے ہیں۔ کہتا ہے آسمان آپ کا گھوڑا ہے۔ بلال زمین اور چابک بجلی ہے۔ سورج کی کرنیں آپ کا پرچم ہیں اور سیاہ بادل غاشا (زَین پوش) ہے۔ آپ کا دروازہ روشن ہالہ ہے اور چمکتے ستارے اصطبل ہیں۔ چاند گویا فتراک ہے جو گردش میں ہے۔ یہ رنگین زمین آپ کا فرش ہے اور سمندر ایک چمن ہے۔ عرش و کرسی آپ کے لیے گھر آنگن ہیں اور آپ کا مقام لامکاں ہے۔ جوش مدح میں محمد قلی نے یہاں غلو کیا ہے۔ لامکاں کو ذاتِ حق سے نسبت ہے آںحضرتﷺ سے اسے منسوب کرنا توحید کے منافی ہے۔
انبر ترنگ زیں چند نو اچابک سرنگ تس بیجلی
سورج کرن پرچم دسے غاشا بدل کارا ہوا
توں در کھلا ہے نرملا پاکاہ ستارے جھمکنے
چندر سو ہے فتراک جوں توں سوں پھرن ہارا ہوا
دھرتی سورنگیں فرش کی چوندھر سمندر حوض ہے
چھپر پلنگ سات آسماں پنکھا سوتج بارا ہوا
جنت کتے تر جگ جس سویک چمن تج باغ کا
کرسی عرش تج گھر انگن ہور لامکاں ٹھارا ہوا
دوسری نعت میں محمد قلی کہتا ہے کہ آںحضرتﷺ کے اسم مبارک کی برکت سے مجھے دنیا میں خاقانی حاصل ہے۔ میں ہمیشہ نبی کا غلام ہوں کہ سلطانی مجھے سجتی ہے۔ دیگر بادشاہ اپنی مملکت پر مغرور ہیں لیکن میں آپ کے نام سے مست ہوں۔ آپ کے نام کی بڑائی کی ایک جھلک نے مجھے فلک تک سربلند کیا ہے۔ سارے ممالک مجھے یوسف ثانی کہتے ہیں۔ مجھے فرعون اور سامری سے خوف کیوں ہو کہ موسیٰ کی طرح زیتون کا عصا میرے لیے تیغ ربّانی ہے۔
اسم محمد تھے اَہے جگ میں سوخاقانی مجھے
بندہ نبی کا جم رہے سہتی ہے سلطانی مجھے
شاہاں غروری ٹھاوں تھے کرتے ہیں اپنی دھانوں تھے
مستی مری تُج ناوں تھے کیتی ہے دیوانی مجھے
اس نام کی بڑپن جھلک مج سربلندی تا فلک
اَکھیں سدا سارے ملک تو یوسف ثانی مجھے
کیا ڈر مجھے فرعون کا ہو رسا مری افسون کا
موسیٰ عصا زیتون کا ہے تیغ ربانی مجھے
ڈاکٹر زور اور ان کی تقلید میں پروفیسر سیدہ جعفر نے ’’کلیات محمد قلی قطب شاہ‘‘ میں نعت کے عنوان سے پانچ غزلیں درج کی ہیں۔ ان میں تیسرے نمبر پر جو غزل ہے وہ مکمل طور پر نعتیہ نہیں ہے۔ ابتدائی دو تین اشعار اور مقطع نعتیہ ہے باقی اشعار غزل کے عام اشعار ہیں جن میں محبوب مجازی سے خطاب ہے مثلاً یہ اشعار نعتیہ کیوںکر ہوسکتے ہیں۔
مکھ تجلی دیکھیا بیداری یا سپنے منے
نیر نیہ کا منج پلا اپنے ادھر سمدور تھے
(میں نے بیداری یا خواب میں تیرے چہرے کی تجلی دیکھی مجھے اپنے ہونٹوں کے سمندر سے محبت کا پانی پلا)
کن طرے کا باس اب باد صباہت بھیج منج
اس دماغِ باورے کوں باس دے مسرور تھے
(اپنے کان کے طرّے کی خوش بو باد صبا کے ہاتھ مجھے بھیج اور اس باورے دماغ کو خوشی سے خوش بو دے)
کب کھلے گا مدعا کا پھول دل گلزار میں
ناز جیغے سوں مرے دل کوں ڈگاتی دور تھے
(دل کے باغ میں مدعا کا پھول کب کھلے گا، جیغے کے ناز سے میرے دل کو دُور سے ڈگمگاتی ہے)
عاشقاں تج باٹ میں بسمل ہوئے ہیں بے شمار
عاشق بیچارہ کوں رکھ پیار کے دستور تھے
(تیری راہ میں بے شمار عاشق بسمل ہوگئے ہیں، بے چار عاشق کو پیار کے طریقے سے (شادماں) رکھ)
ظاہر ہے شرحِ آرزو کا یہ انداز نعت کے اسلوب و کردار سے میل نہیں کھاتا اس لیے یہ نعتیہ اشعار نہیں البتہ اس غزل کا مطلع اور مقطع نعتیہ ہے جس کی وجہ سے کلیات محمد قلی کے مرتبین کو اس پر نعتیہ غزل کا مغالطہ ہوا۔
چاند سورج روشنی پایا تمھارے نور تھے
آب کوثر کو شرف تھڈی کے پانی پور تھے
اے معانی رات دن نامِ محمد ورد کر
تج دعا با مدعا ہے رتبہ منصور تھے
محمد قلی قطب شاہ کا عقیدہ تھا کہ خدا نے اسے نبی کے صدقے میں سربلندی اور تخت و تاج سے نوازا ہے اور جسے خدا نے دیا ہو اسے کوئی زیر نہیں کرسکتا۔ جس کے دل میں محبت اور ایمان ہو آںحضرتﷺ اپنے دستِ مبارک سے اسے اونچا اُٹھاتے ہیں۔ جو عشق میں آپ کا غلام کہلاتا ہے اسے آپ کی مدد حاصل ہوگی اور وہ سدا باعزت رہے گا۔
خدا منج مہرسوں آپی نبی صدقے کیا رافع
منجے تخت سلیماں جوں وہی آپی دیا رافع
یقیں کر دل میں مانیا ہوں خدا جس کوں اپے دیتا
وہ ہرگز زیر ہو سے نا کیا جس کوں خدا رافع
جو کوئی دل میں محبت دھر رہیا ہے ایماں کا
سواس کا ہت پکڑ کر آپ کرتے مصطفی رافع
جو کوئی ان کی محبت سوں غلام ان کے کوایا ہے
مدد اس مصطفی ہے ہو رہے گا وہ سدا رافع
محمد قلی کے عہد میں میلادالنبی کا جشن نہایت دھوم دھام اور تزک و احتشام سے منایا جاتا تھا۔   ڈاکٹر زور نے ’’حدیقۃ السلاطین‘‘ کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’محمد قطب شاہ عیدمیلادالنبیﷺ کی بزم آرائی داد محل کے میدان میں کیا کرتا تھا۔‘‘٭۹ ان تقریبات میں عوام اور اعیان سلطنت کے علاوہ خود محمد قلی بھی شریک ہوتا تھا۔ میلادالنبی کے موضوع پر اس کی کلیات میں چھ نظمیں ملتی ہیں ان کے علاوہ ایک قصیدہ بھی اسی تقریب سے متعلق ہے۔ ان نظموں میں اس نے میلادالنبی کی اہمیت و برکت، آںحضرتﷺ کے علوے مراتب، جشن کی کیفیت اور دیگر نعتیہ تذکار بیان کیے ہیں۔ ایک نظم میں وہ آپ کے مولود کی مسرت میں کائنات کی رونقوں کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے ’’اس نبی پر لاکھوں درود جو رب کے محبوب ہیں اور جن کے لیے نو عدد فیروزی محل (طبقات آسمان) سنوارے گئے۔ جب مولود کی خوشخبری قدسیوں نے پائی تو انھوں نے آٹھوں جنتوں کو آراستہ کیا۔ فرشتوں نے درزی بن کر آسمان کے سرمئی مخمل پر زر کے تار اور شفق کی لال گوٹ لے کر نوری منڈپ بنایا۔ چاند نے آسمان کے سمندر میں غواصی کرکے نبی پر نثار کرنے جو بڑے بڑے موتی نکالے وہی تارے ہیں۔ سورج نے افشاں گر ہوکر نبی کے کاشانے کی دیواروں پر زرافشانی کی جس کی وجہ سے دنیا میں نور ہے۔‘‘ غرض پوری نظم صنعتِ حسنِ تعلیل کا مرقع ہے۔ کچھ اشعار درج ذیل ہیں:
دُردہ لک اس نبی پر جو نرنجن رب کے پیارے ہیں
جو فیروزی مہاڑیاں نوجنن کے تئیں سنگارے ہیں
انن (کذا) دن مولود آئے خوش خبر قدسی یوپائے خوش
پھر امولود گناے خوش جنت آٹو سنوارے ہیں
فلک سُرمائی مخمل کے ملک درزیاں سوتاراں لے
شفق کی گوٹ لالہ سے منڈپ نوری سلائے ہیں
چندر غواص ہو آیا گگن سَمُدر بھتر دھایا
نبی پروار نے لیا یا ڈھلک موتیاں سوتارے ہیں
سورج افشان گر ہوکر نبی مند ہر دواراں پر
زر افشانی کیا یکسا سوجگ میں جھلکارے ہیں
میلادالنبیﷺ نعتیہ شاعری کا ایک اہم موضوع ہے۔ اس موضوع پر محمد قلی کی نظموں سے بعض چیدہ چیدہ اشعار پیش کیے جاتے ہیں:
فرشتے سُرگ ساتوکوں ستاریاں سوں سنوارے ہیں
شۂ دنیا و دیں کے تئیں عرش کرسی سنگارے ہیں
مگر مولود ہے شہ کاعرش اوپر طبل باجے
مراداں پاونے سارے جگت ہاتاں پسارے ہیں
خلائق اس دِنا خاطر کیا پیدا جگت سارا
یقین مانو سگل دن میں یہی دن ہے شرف دارا
حضرت نبی مولود بھی سر تھے نوے لیایا انند
تو اس مبارک دیس تھے ترلوک سب پایا اَنند
گھر گھر بدھاوا کاج ہے بھوساج سوں دن آج کے
سب جگ اپر بادل ہوکر چوندھیر تھے چھایا انند
’’کلیات محمد قلی قطب شاہ‘‘ میں ’’بعثتِ نبی‘‘کے موضوع پر پانچ نظمیں ہیں۔ ان نظموں میںآںحضرتﷺ کی بعثت یا آغاز رسالت پر خوشی و مسرت کا اظہار کیا گیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ محمد قلی کے دور میں میلادالنبی کی طرح بعثت نبی کا جشن بھی منایا جاتا تھا۔ کتب تواریخ میں اس تقریب کی تفصیلات مذکور ہیں لیکن بعثت نبی پر محمد قلی کی نظموں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ہر سال یہ جشن مناتا تھا اور اس موقع پر نظمیں لکھتا تھا جن میں حق تعالیٰ کی جانب سے آںحضرتﷺ کو مبعوث کیے جانے، آپ کو رسالت عطا ہونے، حضرت جبرئیلؑ کی آمد، نزولِ وحی کے آغاز اور دینِ اسلام کی شروعات پر مختلف پیرایوں میں خوشی کا اظہار کیا گیا ہے۔ ان نظموں کے چیدہ چیدہ اشعار ملاحظہ ہوں۔
آیا ہے وقت سرتھے مبعوث مصطفی کا
پایا ہے نور ادک بھی عالم سگل خدا کا
چھایا ہے حق کی رحمت کا چھانوں دو جہاں میں
بھایا ہے دو جہاں کوں سو چھانوں حق عطا کا
لیائے ہے وحی جبرئیل حق کے حبیب کو تب
اقرا کہ توں ہے خاتم سالم سو انبیاؑ کا
پیغمبری تخت پر بیٹھے ہیں جب پیمبر
تب پگ لگ نو انبر اس شمس والضحیٰ کا
٭
نبی مبعوث بھی آکر کیا ہے سب جہاں روشن
ہوا اس دن کے نوراں تھے مکاں ہور لامکاں روشن
ہوا ہے آشکارا دین و ایمان آج کے دن تھے
کیا ہے فیض اس دن کا سگل امت کا جاں روشن
ہمارے ہیں نبی سرتاج سارے انبیا کے تو
نین اس نور تھے کیتے ہیں سب پیغمبراں روشن
بعثتِ نبیﷺ کے علاوہ ’’معراج‘‘ کے موضوع پر بھی محمد قلی نے ایک نظم کہی ہے۔ کلیاتِ محمد قلی میں میلاد النبیﷺ پر ایک قصیدہ ہے جو مکمل ہے اور بعثتِ نبی پر ایک قصیدہ ہے جو نامکمل ہے۔ قصیدہ میلاد مجددیہ یا غیر مقتضب ہے یعنی اس میں تشبیب نہیں ہے، مدح سے آغاز کیا گیا ہے۔ نیز اس میں نعتیہ مضامین کے پہلو بہ پہلو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی منقبت بھی شامل ہے۔ اس قصیدہ کا مطلع درج ذیل ہے:
نبی مولود لیایا ہے خبر سرتھے خوشی کا
سدا صلوٰۃ بھیجو سب محمد ہور علیؓ کا
بعثتِ نبویﷺ کی نظموں اور قصائد کے علاوہ عیدسوری پر اس نے جو نظمیں لکھی ہیں ان میں بھی بیش تر اشعار نعتیہ ہیں۔ عید غدیر کی نظموں میں بھی تذکار نبی ہیں۔ بقرعید پر لکھی گئی ایک نظم کی ردیف ہی’’صلوٰت برمحمد‘‘ ہے۔ اپنی برس گانٹھ (سالگرہ) پر اس نے جو نظمیں لکھی ہیں ان میں بیش تر کا پہلا شعر نعتیہ ہے۔ اسی طرح باغ محمد شاہی کی تعریف میں جو قصیدہ ہے اس کا مطلع بھی نعتیہ ہے۔محمد نانوں تھے بستا محمد کا اے بن سارا
سو طوباں سوں سہاتا ہے جنت نمنے چمن سارا
محمد قلی نے عید نوروز کے قصیدے میں بھی آںحضرتﷺ کا ذکر کیا ہے۔ محمد قلی کی نعتیہ شاعری کا خاص پہلو ہئیتوں کا تنوع ہے۔ اس کے کلات میں شامل پانچ رُباعیات میں آںحضرتﷺ کا ذکر ہے۔ ایک رباعی درج ذیل ہے آخری مصرعے میں لولاک لما خلقت الافلاک کا ٹکڑا قابلِ توجہ ہے۔
تیرا شرف ادراک میں تین ٹاک آیا
جم تیرا سبق ’نعبد ایاک‘ آیا
تیرا سو نشانِ مصحفِ پاک آیا
لولاک لما خلقت الافلاک آیا
محمد قلی کی کلیات میں بکثرت نعتیہ اشعار ملتے ہیں۔ بیشتر غزلوں کے مقطع میں اس نے ’’نبی صدقے‘‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ یہاں تک کہ اس کی وہ نظمیں؍ غزلیں جو بھوگ بلاس کی ترجمانی کرتی ہیں ان میں بھی وہ اپنی ہوس رانی کو نبی کا صدقہ کہتا ہے اور اپنی لذت کوشی و ہوس پرستی پر مذہبیت کا پردہ ڈالنے کی کوشش کرتا۔
نبی صدقے بسنت کھیلیا قطب شہ
رنگیلا ہو رھیا ترلوک سارا
تیرے مرے پاواں سکی جوں ناگ ناگن مل رہے
صدقے نبی کرتا قطب کرتار تھے آپار عیش
نبی صدقے قطب بہو گن رین دن عیش کرنے تھے
یوں سرخوش مدن سرخوش جگن سرخوش مکن سرخوش
صدقے نبی کے رات دن بہت انند سوں
امرت ادھر پلاتے ہیں قطب کوں سندر لذیذ
نبی صدقے قطب جم عیش کر عیش
کہ تج در پر کھڑے ہیں فتح و اقبال
کلیات محمد قلی میں نعتیہ سرمایہ بلحاظ کمیت ہی نہیں بلکہ بلحاظ کیفیت بھی نہایت وقیع ہے۔ اس کے نعتیہ اشعار فنی محاسن اور صنائع و بدائع سے مرصع ہیں۔ تاہم اس کے نعتیہ اشعار میں وہ سوز و گداز، تاثیر اور تڑپ نظر نہیں آتی جو عاشقِ رسول کی نعت میں ہونی چاہیے۔ اس کے ہاں اخلاص و صداقت اور جذبہ و حرارت کے فقدان کا احساس ہوتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کی نعت گوئی محض رسم ی ہے جس کا مقصد محض اظہارِ عقیدت اور حصولِ برکت ہے۔ اس کے ہاں عشقِ رسولﷺ کے تجربات و واردات کا ابلاغ نہیں ہوا ہے۔ یہاں قال ہی قال ہے حال کا دُور دُور تک پتا نہیں۔ ان کم زوریوں کے باوجود اُردو نعت گوئی کی تاریخ محمد قلی قطب شاہ کو نہایت اہم اور بلند مقام حاصل ہے۔ اس نے اُردو نعت کو فارسی اوزان و بحور سے آشنا کیا۔ موضوعات کی بوقلمونی اور ہئیتوں کا تنوع اس کی نعتیہ شاعری کا گوہرامتیاز ہے۔ اس نے اُردو میں غزل کی ہیئت میں نعت نگاری کی طرح ڈالی اور نعت کو غزل کے معیار سے ہم آہنگ کیا۔ نعت کی صنفی شناخت متعین کرنے میں اس کی نعتیہ شاعری کا اہم حصہ ہے۔ اس نے اس کثرت اور تسلسل و تواتر کے ساتھ نعتیہ شاعری کے عناصر کو اپنی غزل/ نظم، قصیدہ رباعی اور چاردرچار جیسی اصناف میں برتا کہ اس کی شاعری اُردو میں نعتیہ شاعری کا پہلا مرجع بن گئی۔
گولکنڈہ کا چھٹا حکمران سلطان محمد قطب شاہ بھی ایک خوش گو شاعر تھا۔ وہ ’’ظِل اللہ‘‘ تخلص کرتا تھا۔ محمد قطب شاہ مرزا محمد امین کا فرزند اور سلطان محمد قلی کا بھتیجا اور داماد تھا۔ محمد قلی نے اپنی دختر حیات بخش بیگم کی شادی اس کے ساتھ کی تھی۔ چوںکہ محمد قلی اولاد نرینہ سے محروم تھا اس لیے اس کے انتقال کے بعد محمد قطب شاہ تخت گولکنڈہ کا وارث ہوا۔ اس نے ۱۰۲۰ء سے ۱۰۳۵ء تک حکمرانی کی۔ سلطان محمد قطب شاہ علم و فضل کے اعتبار سے تمام قطب شاہی سلاطین میں فردِ فرید تھا۔ سیرت و کردار کے اعتبار سے بھی وہ نہایت متقی اور پرہیزگار واقع ہوا تھا۔ مکہ مسجد کا سنگِ بنیاد اسی نے رکھا۔ اس کا دکنی کلام ناپید ہوچکا ہے سوائے اس منظوم دیباچے کے جو اس نے اپنے خسر محمد قلی کے کلیات پر قلم بند کیا تھا۔ البتہ کتب خانہ سالار جنگ کی قلمی بیاضوں میں اس کا کچھ فارسی کلام محفوظ ہے۔ جسے میر سعادت علی رضوی نے کلام الملوک میں یکجا کیا ہے۔ اس میں پہلے حمد ہے اس کے بعد نعت ہے۔ نعت میں محمد قطب شاہ ظل اللہ نے آںحضرتﷺ کی مدحت کے ساتھ سیّدنا علی کرم اللہ وجہہ کی منقبت بھی جمع کی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ مصطفی اور مرتضیٰ چوںکہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں اس لیے دونوں کی نعت و منقبت بھی ایک ساتھ ادا کرنا چاہیے۔
مصطفی و مرتضیٰ چوں نیستند از ہم جدا
نعت و مدح ہردوشد رامی کنم باہم ادا
بعد کے اشعار میں اس نے آںحضرتﷺ کے فضائل اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے مناقب پہلو بہ پہلو بیان کیے ہیں۔ ان اشعار میں اس نے قرآنی آیات اور روایات کے حوالے سے مضمون آفرینی کی ہے۔ آیات و روایات کے حوالوں کی وجہ سے نعت کا رنگ عاشقانہ نہیں بلکہ عالمانہ ہوگیا ہے۔ یہاں محبت و شیفتگی پر مدح و توصیف کا جذبہ غالب ہے۔ حضورِ اکرمﷺ کے مدارج اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مراتب کا ذکر کرتے ہوئے ظل اللہ کہتا ہے:
آںحضرتﷺ کے نعوت عالیہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فضائل کی توصیف کرتے ہوئے ظل اللہ نے فرق مراتب کا خیال رکھا ہے۔ وہ اپنے خسر محمد قلی کی طرح حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا رتبہ انبیا سے بڑھ کر نہیں بتاتا، مثلاً محمد قلی کا یہ شعر ملاحظہ ہو:
انبیا ہور اولیا میں حق کیا تمنا بڑا
سچ تمیں دامادِ پیغمبر ہیں علَّام الخبیر
محمد قطب شاہ آںحضرتﷺ اور جناب علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مراتب میں فرق کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اگرچہ دونوں خاصانِ حق ہیں، لیکن آںحضرتﷺ کا مقام کہاں اور جناب علی رضی اللہ عنہ کہاں۔ ظاہر ہے کسی نبی مرسل کے مرتبے کو کوئی غیر نبی نہیں پہنچ سکتا۔ ظل اللہ کہتا ہے:
ہر یکے راگر بدسنجی بادگر خاصانِ حق
ہست جائے آں کہ گویندایں کجاوآں کجا٭۱۱
اس نعت کے علاوہ ایک رباعی میں بھی ظل اللہ نے آںحضرتﷺ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فیضان کا پہلو بہ پہلو ذکر کیا ہے۔
گر نور تجلی نہ رسید از طورم
وز فیض دم مسیح ہم مہجورم
دارم ز دم علیؓ حیات ابدی
و ز نور محمدی سراپا نورم٭۱۲
ظل اللہ کی ایک غزل کے درج ذیل اشعار بھی نعتیہ معلوم ہوتے ہیں۔ اگرچہ اس میں صراحت کے ساتھ ذاتِ رسالت مآبﷺ کا ذکر نہیں ہے لیکن اشعار کا قرینہ کہہ رہا ہے کہ ان اشعار کا مخاطب محبوب مجازی نہیں ہے۔ یہاں نعت پر تغزل کا رنگ غالب ہے۔ اس میں دوری و مہجوری کا شکوہ اور اظہار حسرت و ملال ہے۔ محبوب کے خورشید اور اپنے ذرہ بے مقدار ہونے کا احساس ہے۔ محبوب کو بیداری میں نہ سہی خواب میں دیکھنے پر اظہارِ مسرت کیا گیا ہے۔ ان اشعار میں سوز و گداز بھی ہے اور جوش و تاثیر بھی۔ ان اشعار کو غزلیہ نعت کہہ سکتے ہیں:
دلم نالاں زدست دوریٔ تست
ہنوزم حسرت مہجوری تست
تو خورشیدے و من چو ذرہ زاں روئے
دلم لرزاں زتاب دوریٔ تست
بہ بیداری نہ بینم لیک درخواب
دلم فرخندہ از مسروریٔ تست٭۱۳
گولکنڈہ کی قطب شاہی سلطنت کا ساتواں حکمران سلطان عبداللہ قطب شاہ بھی اپنے نانا محمد قلیقطب شاہ کی طرح دکنی کا ایک خوش فکر اور بلندپایہ سخنور تھا۔ وہ علم و ادب کا شیدا اور فنونِ لطیفہ کا دل دادہ تھا۔ اس نے علما و فضلا اور اہل کمال کی بڑی سرپرستی کی۔ اس کے بذل و نوال اور بخشش و عطا کی وجہ سے روم و شام اور ایران و توران کے اصحاب علم و فضل گولکنڈہ کھینچے چلے آئے۔ سیاسی و ملکی اعتبار سے اس کا عہدِ حکومت تاریک لیکن علمی و ادبی اور تہذیبی و تمدنی اعتبار سے نہایت درخشاں تھا۔ وجہی غواصی اور ابن نشاطی جیسے شعرا اس کے دربار سے وابستہ تھے۔ عبداللہ قطب شاہ کے دیوان کا نامکمل قلمی نسخہ دست یاب ہوا ہے جس میں ردیف ’ث‘ تک کی غزلیات ہیں۔ سلطان عبداللہ کے دیوان میں حمد و نعت اور منقبت عید مولود نبی، عید رمضان، عید غدیر، بسنت، نوروز، مرگ، ٹھنڈ کالا، دُھپ کالا وغیرہ موضوعات پر مسلسل غزلیں، غزلیں اور ریختیاں بھی ہیں۔ منقبت حضرت علیؓ، جشن عید اور عشرت محل کی تعریف میں قصیدے بھی۔٭۱۴ غزلوں کے علاوہ اس نے صاحبِ کتابِ نورس ابراہیم عادل شاہ ثانی کی طرح راگ راگنیوں پر مبنی گیت بھی لکھے۔ اس کے دیوان میں چار نعتیں ملتی ہیں جن میں ایک توصیفی ہے، دو مولود نبی پر لکھی گئی ہیں اور چوتھی کا موضوع ’’دینِ محمد کا دن‘‘ ہے۔ پہلی نعت کا انداز توصیفی ہے۔ اس میں عبداللہ قطب شاہ آںحضرتﷺ کو بوقت ولادتِ پیغمبری عطا کیے جانے کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’سارے فرشتے زمین پر اتر آئے۔ دنیا آپ پر ایمان لے آئی۔ فرشتے آپ کا دم بھرتے ہیں اور ستارے آپ پر تصدق ہوتے ہیں۔‘‘ سلطان عبداللہ کہتا ہے کہ آپ اوتار ہوکر آئے ہیں اس لیے کوئی آپ کو پوجتے تھکتا نہیں۔ آںحضرتﷺ کی رسالت کے لیے ’’اوتار‘‘ کا لفظ مناسب نہیں ہے۔ اسی طرح آپ کی توصیف میں پوجنے کا لفظ بھی محل نظر ہے۔
خدا پیغمبری دے کر محمد کوں جو سرجایا
ملک کل برز میں آیا جگ ایماں اس اپر لیایا
ملک اس کاچ دم ماریں، ستارے آپسیں واریں
نہ کوئی اس پوجنے ہاریں کہ وواوتار ہو آیا
یہ نعت غزل کی ہیئت میں ہے لیکن اس میں سلطان عبداللہ نے داخلی قوافی بھی استعمال کیے ہیں جس کی وجہ سے اشعار کی صوتی جھنکار اور موسیقیت میں اضافہ ہوگیا ہے۔ آںحضرتﷺ کے معجزات کے ضمن میں سلطان عب داللہ نے میلاد ناموں کی عام روایات سے استفادہ کیا ہے۔ کہتا ہے ’’آپ کے نام مبارک سے مردے زندہ ہوگئے۔ آپ کا سایہ نہیں تھا، آپ پر دھوپ نہیں پڑتی تھی بلکہ ابر ہمیشہ آپ پر سایہ فگن رہتا اور آپ کے ساتھ حرکت کرتا تھا۔
جلاوے جیو کوں اس کا ناوں، بل بل میں نت اس پر جائوں
کہ کوئی روئے زمین پر چھائوں اس کے قد کی نئیں پایا لٹکتا وو جدھر جائے بدل چھتر ہو سر چھاوے
نہ مکھ دھوپ اس کو دکھلاوے ہے اس کا سب اپر سایا
سلطان عبداللہ کو موسیقی سے بڑی رغبت تھی۔ اس نے شاعری میں بھی ترنم اور آہنگ پر خاص توجہ دی ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی ارقام طراز ہیں:
عبداللہ موسیقی کا احساس پیدا کرنے کے لیے لفظوں کو سجاکر استعمال کرتا ہے، بہت سی غزلوں میں صنعت لزوم مالایلزم کا استعمال کیا گیا ہے۔ ہر مصرعے میں ہم قافیہ الفاظ کے استعمال سے ایک لَے، ایک جھنکار پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ عبداللہ کے دیوان میں غزلیں اسی صنعت میں ملتی ہیں۔٭۱۵
جمیل جالبی کا یہ مشاہدہ بالکل درست ہے۔ ذیل کی نعت میں بھی موسیقی کو شاعری سے ملانے کا عمل نظر آتا ہے۔
لَکھ فیض سوں پھر آیا دن دین محمد کا
آفاق صفا پایا دن دین محمد کا
اسلام کرا تارا آیا جو نکل بھارا
چھپ کفر گیا سارا دن دین محمد کا
قرینہ بتا رہا ہے کہ یہ نعت ’’دین محمد کے دن‘‘ کی آمد پر لکھی گئی ہے۔ اس عید کے بارے میں کتب تواریخ خاموش ہیں۔ غالباً ’’دین محمد کا دن‘‘ وہی تقریب ہے جسے کلیات محمد قلی قطب شاہ میں ’’عید بعثت نبی‘‘ کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ جمیل جالبی نے اس نعت کی غنائیت کو سراہا ہے لیکن انھوں نے اس کی ہیئت پر توجہ نہیں دی۔ یہ نعت غزل کی ہیئت میں نہیں ہے۔ اس کا ہر شعر جداگانہ قافیے میں ہے۔ لیکن تمام اشعار ایک ہی وزن اور ایک ہی بحر میں ہیں اور سب کی ردیف بھی ایک ہی ہے۔ قدیم دکنی مخطوطات میں اس قسم کی نظمیں ملتی ہیں جن میں قافیے کی بجائے ردیف کی پابندی کی جاتی ہے۔ گویا یہ ایک طرح کی ’’مختلف القافیہ مردف غزل‘‘ ہے۔ اس نعت کے ہر شعر میں سلطان عبداللہ نے تین تین قافیے لائے ہیں۔ بدلتے ہوئے قافیوں کا زیر و بم ایسا ہے کہ نعت میں ایک خاص نغمگی اور بہائو کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ غالباً اسی نغمگی اور نشاطیہ آہنگ کو برقرار رکھنے کے لیے قافیے کی پابندی سے انحراف کیا گیا ہے۔
یو عید ہمن ساجے نصرت کے بجیں باجے
ہے جگ کے نبی دن دین محمد کا
گلشن میں شریعت کے پُھل کھیلے طریقت کے
پر مل سوں حقیقت کے دن دین محمد کا
روشن ہوے اسماناں، جھمکائے رتن کھاناں
حظ لیویں مسلماناں دن دین محمد کا
عبداللہ قطب شاہ نے میلادالنبی پر دو غزلیں لکھی ہیں۔ جن میں آںحضرتﷺ کی ولادت پر خوشی و مسرت کے جذبات اور اس عید کی برکتوں اور شادمانیوں کا اظہار کیا گیا ہے۔ عبداللہ قطب شاہ یہ عید نہایت اہتمام سے مناتا تھا۔ ’حدیقۃ السلاطین‘ میں عید میلاد کے جشن کی روداد موجود ہے۔ ذیل میں عبداللہ کی نعتیہ غزلوں کا مطلع و مقطع درج کیا جاتا ہے:
جھلک مولود کا بھی جگ میں آیا
جگت سب اس جھلک تے جگمگایا
نبی کے صدقے عبداللہ سلطان
مبارک یو خوشی خوش ہوگنایا
نبی مصطفی کا جو مولود آیا
جہاں صاف ہو سربسر جگمگایا
نبی کاہوں میں سیوکی خاص تویوں
ہو سلطان عبداللہ جگ من کوں بھایا٭۱۶
’’محمد قلی کی طرح عبداللہ کی غزل کا ہر مقطع نبی صدقے سے شروع ہوتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو نبی کا ’داس‘ اور ’سیوکی‘ کہتا ہے۔ دُنیوی ترقی شاہانہ وقار، شاعری میں جادو بیانی، عیش کوشی اور وصلِ محبوب کو بھی وہ نبی کا صدقہ قرار دیتا ہے۔‘‘٭۱۷
شاہ عبداللہ جو ہے حضرت نبی سیوکی
ہر گھڑی صلوٰت بھیجے دیکھ تیرا جمالا
میں عبداللہ ہوں داس اس کا
دھروں دوجگ میں آس اس کا
بھنور ہو لیوئوں باس اس کا
محمد ہو مجھے بھایا
صدقے نبی کے شاہ نول عبدلا ہو توں
مقصود ہور مراد سیتی کامیاب تھا
نبی کے صدقے عبداللہ سداتوں شکر کر اس کا
جکوئی تج کوں نوازیا ہور شاہی کا ہدا دیتا
ملیا سیج پر تج سوں موہن پیاری
نبی صدقے عبداللہ سلطان پیارا
نبی کے صدقے عبداللہ شہ لاکھ آرزو سیتی
لیا ہے ٹوٹ کر اے دھن میٹھا گڑ تیرے لب کا سب
مغل شہنشاہ اورنگ زیب نے بیجاپور کی عادل شاہی سلطنت گولکنڈہ کی قطب شاہی حکومت کا خاتمہ کردیا۔ اورنگ زیب کی فتوحاتِ دکن کے نتیجے میں یہ سارا علاقہ عظیم تر مغلیہ سلطنت میں ضم ہوگیا۔ یہاں مغل شہنشاہوں کی جانب سے صوبیدار مقرر کیے جانے لگے۔ نواب میر قمرالدین خان نظام الملک آصف جاہ اول جو محمد شاہ رنگیلے کے وزیرالسلطنت تھے بادشاہ کی عیش پرستی اور اہلِ دربار کے ریشہ دوانیوں سے بدظن ہوکر دکن چلے آئے جہاں وہ فرخ سیر کے زمانے میں صوبے دا رہ چکے تھے۔ یہاں انھوںنے مغل صوبیدار مبارز خان کو شکست دے کر ۱۱۳۶ھ م ۱۷۲۴ء میں مملکت آصفیہ کی بنیاد رکھی۔
نظام الملک نہایت دانش مند، بلند حوصلہ اور سیاس حکمران تھے انھوں نے اورنگ زیب کی آنکھیں دیکھی تھیں۔ انھیں معقول و منقول اور فقہ و اصول میں بھی مہارت حاصل تھی وہ عربی و فارسی اور ترکی زبانوں میں ملکہ رکھتے تھے۔ وہ بڑے علم دوست تھے۔ شعر و سخن کا بھی اعلیٰ ذوق رکھتے تھے۔ شاعری میں مرزا عبدالقادر بیدل سے اصلاح لیتے تھے۔ فارسی میں دو ضخیم دیوان ان سے یادگار ہیں۔ یہ دیوان آصف سابع کے حکم سے شائع ہوچکے ہیں۔ ابتدا میں شاکر اور بعد میں آصف تخلص کرتے تھے۔ ان کی شاعری کا بیشتر حصہ تصوف و معرفت کے مضامین اور وحدت الوجودی خیالات سے مملو ہے۔ ان کے کلام میں نعتوں کے علاوہ غزلوں میں بھی نعتیہ اشعار ملتے ہیں۔ پہلے نعت کے کچھ اشعار دیکھیے جو غزل کی ہیئت میں ہیں۔ ان میں رحم و کرم اور لطف و عنایت کی درخواست کے ساتھ آپ کے اسم مبارک کے ورد آپ کی بارگاہ پر جبہ سائی کے ذوق و شوق کا اظہار کیا گیا ہے۔ ان اشعار میں دیدار کی تمنا اور پابوسی کی آرزو بھی مچلتی نظر آتی ہے۔ نعت کی فضا جذبہ و اثر اور عقیدت و اخلاص سے رچی ہوئی ہے۔
رحم و لطف ساز یارم یا محمد تاج دین
از عنایت سازگارم یا محمد تاج دیں
دانہ تسبیح باشد دلبدست شوق من
نام پاکت می شمارم یا محمد تاج دیں
جبہ سائیدن نجاکِ درگہ نورانیت
میفز اید اعتبارم یا محمد تاج دیں
چہرہ نورانی خود را نما خورشیدوار
بردرت در انتظارم یا محمد تاج دیں
خاک راہت گشتہ ام درآرزوے پاے بوس
درہو ائے تو غبارم یا محمد تاج دیں
پیش الطاف تو آصف قائل ازجان و دلست
جز تو دیگر من کہ دارم یا محمد تاج دیں٭۱۸
درج ذیل نعتیہ اشعار میں بھی عشق و عقیدت کی کارفرمائی محسوس ہوتی ہے:
باشد بلند ہمچو علم در صف نماز
درگوش اہل سجدہ اذانِ محمدی
در رُتبہ اَش تنزل دیگر ضرورشد
عیسیٰ چوگفت بعدِ من است اِسم احمدی
ہرجا کہ میروی بیت آصف گرفتہ است
تو مقتدائے وقتے و مائم مقتدی٭۱۹
آںحضرتﷺ کی لائی ہوئی شریعت کی اہمیت اور اس پر عمل پیرا ہونے کی تاکید کا اندازہ دیکھیے:
شاکر چوشرع پاک نبی حکم ایزد است
بے رخصت رسول مکن ہیچ کار را
آصف بنو د مستئی ما از مے دیگر
مستیم درین میکدہ از جام محمد٭۲۰
نظام الملک آصف جاہ اول کے انتقال کے بعد ان کے فرزند دوم میر احمد خاں نظام الدولہ ناصر جنگ ۱۱۶۱ھ میں سریر آرائے سلطنت ہوئے ’’نواب ناصر جنگ کو شعر و شاعری کا ذوق اپنے والد ماجدسے ورثے میں ملا تھا آفتاب اور ناصر تخلص کرتے تھے۔ فارسی میں مرزا صائب کا تتبع کرتے تھے جس کی نسبت کئی جگہ اظہار بھی کیا ہے۔ ان کی سخن فہمی کا تذکروں میں ذکر ہے۔ فارسی کے علاوہ اُردو میں بھی شعر کہتے تھے۔‘‘٭۲۱
۱۱۶۴ھ میں فرانسیسیوں کی شہ پر ناصر جنگ کے بھانجے مظفر جنگ نے علم بغاوت بلند کیا جسے فرو کرنے کے لیے وہ ارکاٹ گئے اور وہیں میدان جنگ میں شہید ہوگئے۔ ناصر جنگ فارسی کے بلند پایہ سخنور تھے (شاعری میں انھیں اس دور کے شہرہ آفاق شاعر و ادیب۔ غلام علی آزاد بلگرامی سے تلمذ حاصل تھا) صاحب تذکرہ شعرائے دکن اطلاع دیتے ہیں کہ ناصر جنگ کے تین دیوان ہیں جو نواب میر محبوب علی خاں آصف جاہ سادس کے حکم سے شائع ہوچکے ہیں۔٭۲۲ ناصر جنگ کے تینوں دواوین میں نعتیہ اشعار ملتے ہیں جو حضور اکرم سے ان کی دلی عقیدت و وابستگی کا مظہر ہیں۔ ایک مقام پر انھوں نے حمد میں نعت کی گنجائش نکالی ہے۔ حق تعالیٰ کے بے پایاں الطاف و عنایات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ہمارے لیے اس سے بڑھ کر اعزاز اور کیا ہوگا کہ حق نے محمدمصطفیﷺ جیسے برگزیدہ رسول کو ہمیں دینِ اسلام کی دعوت پہنچانے کے لیے مبعوث فرمایا۔ اس نے آپ کے دین کی حقانیت روشن کرنے کے لیے آپ کے ذریعے چاند کو دو نیم کر دکھایا۔
چہ باشد بہر مازیں بیش عزت
فرستادے بدعوت مصطفی را
بود روشن دلیل دین پاکش
کہ شد شق القمر زو آشکارا٭۲۳
بروز قیامت آںحضرتﷺ کی شفاعت کے حصول کا کس پُراعتماد لہجہ میں اظہار کیا ہے۔
امید عفو جرائم بود مرا ازحق
کہ ہست احمد مختار غدر خواہ مرا٭۲۴
ایک جگہ کہتے ہیں اگر آںحضرتﷺ کا اسم مبارک سن لے تو آتش دوزخ بھی اپنی حدت ختم کردے گی جب میں نے نامِ احمد لکھا تو حروف کی مٹی سے گلاب کی خوشبو مہکنے لگی۔
نام احمد گر رسد در سمع او
آتش دوزخ نشنید ز التہاب
کردہ ام چوں نام احمد را رقم
از گل حرفم، د مد بوئے گلاب٭۲۵
ناصر جنگ کا نعتیہ کلاب محض رسمی نہیں ہے اس میں حقیقی جذبات و واردات کا عکس نظر آتا ہے۔ خلوص عقیدت کے سبب ان کے اشعار میں ایک خاص کیف و آہنگ اور روانی و جوش کا احساس ہوتا ہے۔
مندرجہ بالا قطعہ غالباً سعدیؒ کے مشہور نعتیہ قطعہ بلغ العلیٰ بکمالہ… کے جواب میں لکھا گیا ہے۔ دیوان سوم کی ایک نعت کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
زہے شمشیر عزمت آفتابی
کزودین شد منور ماہتابی
نبو دونیست باشد چوں محمد
بہ تخت خسروے عالی جنابی
محمد نورعین و عین نور است
بود ہر ذرّۂ او آفتابی٭۲۷
آقائے نامدار کے طریق و سنن کی عظمت و اہمیت کا کس قدر شدید و گہرا احساس ان اشعار میں پنہاں ہے:
تو گرغبارہ مصطفی شوی ناصر
بچشم اہل نظر رشک تو تیاباشی٭۲۸
بغیر از جادہ شرعِ محمد
بہرہ رہ میروی نفرندہ باشی٭۲۹
ناصر جنگ کے آخری شعر میں حضرت سعدیؒ کے درج ذیل شعر کا پرتو نظر آتا ہے۔
خلاف پیمبر کسے رہ گزید
کہ ہرگز بمنزل نہ خواہد رسید
صاحبِ ’’تحفۃ الشعراء‘‘ کا بیان ہے کہ ناصرالدولہ کبت اور دوہرے بھی لکھتے تھے۔ انھوںنے ناصر الدولہ کا ایک نعتیہ کبت بھی نقل کیا ہے جو درج ذیل ہے:
حضرت رسول اللہ کی رحمۃ للعالمین
شاہنشاہ تاج الانبیا مرشد الکاملین
جگ نستارن کام توارن ناصرالمومنین
احمد تم بن شفاعت جاہت شفیع المذنبین٭۳۰
یہ عجیب اتفاق ہے کہ آصف جاہی خاندان کے پہلے دو حکمران شاعر تھے یعنی نظام الملک آصف جاہ اوّل اور ناصر جنگ شہید، ان کے بعد آخری دو حکمران شاعر ہوئے یعنی نواب میر محبوب علی خاں آصف جاہ سادس اور نواب میر عثمان علی خاں آصف جاہ سابع، درمیانی فرمانروا شاعر نہیں تھے۔ مملکت آصفیہ حیدرآباد فرخندہ بنیاد کے چھٹے شہریار نواب میر محبوب علی آصف جاہ سادس (۱۲۸۵ھ تا ۱۳۲۹ھ) شعر و سخن کا کڑھا ہوا ذوق رکھتے تھے۔ شاعری میں انھیں مرزا داغ دہلوی سے تلمذ حاصل تھا۔ اپنے جد اعلیٰ نظام الملک آصف جاہ اول کی طرح یہ بھی آصف تخلص کرتے تھے۔ ڈاکٹر زور اطلاع دیتے ہیں کہ ان کا دیوان اور کلام چھپ چکا ہے۔٭۳۱ لیکن راقم الحروف کی تحقیق کے مطابق ان کا دیوان نہیں چھپا۔ یہی خیال جناب سیّد محمد نقی رضوی کا ہے جنھوں نے ’’مرقع سخن‘‘ میں ’’میر محبوب علی خاں آصف جاہ سادس‘‘ پر مضمون لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’آصف کا دیوان چھپ جاتا تو اس میں شک نہیں کہ ادب اُردو کا قابل قدر سرمایہ سمجھا جاتا اور یہ بھی معلوم ہوتا کہ انھوںنے کس کس صنف سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔‘‘٭۳۲ محبوب علی خان آصف کی قادرالکلامی کے بارے میں عبدالجبار خان صوفی ملکاپوری لکھتے ہیں: ’’آپ کو نظم کلام میں قوت مستحضرہ حاصل ہے۔ انواع کلام کے ہر ایک نوع کو آسانی سے موزوں کرسکتے ہیں۔‘‘٭۳۳ اس میں شک نہیں کہ آصف ایک پرگو شاعر تھے۔ غزلیات کے علاوہ انھوںنے موضوعاتی نظمیں، سلام اور رباعیاں بھی لکھی ہیں۔ ان کا کلام حیدرآباد سے شائع ہونے والے گل دستے محبوب الکلام میں پابندی سے شائع ہوتا تھا۔ کافی تلاش کے باوجود آصف کے صرف تین نعتیہ شعر دستیاب ہوئے جو درج ذیل ہیں:
روز محشر پرسش اعمال ہوگی جب مری
یا نبی دوںگا دہائی پر دہائی آپ کی٭۳۴
آصف سے ہم نے پوچھا جو مذہب تو یہ کہا
ہم ہیں غلام پنجتن و چاریار کے٭۳۵
محبوب حق کی زلف وہ ہے جس کے واسطے
مژگاں کو اپنی حوانے بھی شانہ کردیا٭۳۶
مملکت حیدرآباد کے آخری تاجدار میر عثمان علی خاں آصف سابع تھے۔ یہ میر محبوب علی خاں غفران مکان کے فرزند تھے۔ ۱۳۲۹ھ (۱۹۱۱ء) میں مسند آصفی پر متمکن ہوئے۔ آصف سابع کا عہد حکومت ملکی نظم و فسق کی اصلاح و ترقی، رفاہ عام کے کاموں اور علوم و فنون کے شیوع و فروغ کے حوالے سے دکن کی تاریخ کا سنہرا دور کہلاتا ہے۔ آصف سابع نے تعلیم کو عام کرنے میں بڑی دلچسپی لی۔ جامعہ عثمانیہ، دارالترجمہ اور شعبہ تصنیف و تالیف ان کے ایسے علمی کارنامے ہیں جنھیں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ آصف سابع کو اُردو، فارسی اور عربی کے علاوہ انگریزی زبان میں بھی مہارت حاصل تھی۔ سلطان العلوم آصف سابع کو اُردو شاعری کا ذوق ورثے میں ملا تھا۔ اوائل عمری سے ہی شعر کہتے تھے۔ ابتدا میں داغ کو اپنا کلام دکھایا ان کے انتقال کے بعد فصاحت جنگ جلیل سے مشورہ سخن جاری رکھا۔ وہ اُردو و فارسی میں عثمان اور ہندی میں سابع تخلص کرتے تھے۔ آصف سابع نے غزل، نظم، قطعہ، رباعی، حمد، نعت، سلام اور مرثیہ کے علاوہ گیت اور ٹھمریاں بھی لکھیں۔ وہ نہایت پرگو سخن ور تھے۔ ان کے ضخیم دیوان کی چھ جلدیں جو ساڑھے سات سو غزلیات کو محتوی ہیں ۱۳۳۷ھ تک شائع ہوچکی تھیں۔ اس کے علاوہ تریسٹھ نعتیہ قصائد کا مجموعہ ’’وسیلہ نجات‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ دواوین اور نعتیہ مجموعہ اب نایاب ہے۔ ۱۹۷۵ء میں نظام پوئم ٹرسٹ کے زیراہتمام ’’انتخاب کلام آصف سابع‘‘ شائع ہوا جس کا مقدمہ پروفیسر رشید احمد صدیقی نے زیب قلم کیا تھا۔ عشقیہ شاعری کی طرح آصف سابع کا نعتیہ کلام بھی خاصیکی چیز ہے۔ جس میں زبان کی صفائی اور روزمرہ کے لطف اور خیال بندی کے علاوہ حضورِ اکرم سے دلی وابستگی، عقیدت و احترام، توصیف و مدحت، قرینہ ادب، آرزوئے دیدار، تمنائے شفاعت، صلوٰۃ و سلام اور غلامانہ عرض و معروض کا انداز ملتا ہے۔ آصف سابع کے ہر دیوان کا افتتاح نعت سے ہوتا ہے۔ ذیل میں ان کے پانچ دواوین سے نعتیہ اشعار کا انتخاب دیا گیا ہے۔ چھٹا دیوان دستیاب نہیں ہوسکا۔
دیوان اوّل:
نازاں ہیں اس عطا پہ غلامانِ مصطفی
ہم کو دیا رسول تو خیرالبشر دیا٭۳۷
یہ شعر کہتے وقت آصف سابع نے اپنے جد بزرگ ناصر جنگ کا یہ نعتیہ شعر پیش نظر رکھا ہوگا:
چہ باشد بہر مازیں بیش عزت
فرستادی بدعوت مصطفی را
دیوان دوم:
ہم گنہ گاروں کو مشکل ہے خدا کا سامنا
حشر میں ہوکاش پہلے مصطفی کا سامنا
کرسکے کب چاند اس بدرالدجیٰ کا سامنا
کرسکے سورج نہ جس شمس الضحیٰ کا سامنا
ہوں بہت مشاق یا رب اس جمال پاک کا
خواب ہی میں ہو کبھی خیرالوریٰ کا سامنا
خاتمہ بالخیر ہو عثمان کا ربِ غفور
نامِ احمد لب پہ ہو جب ہو قضا کا سامنا٭۳۸
دیوان سوم:
سرتاج انبیا کے ہیں حق کے حبیب ہیں
میں کیا کہوں کہ مرتبہ مصطفی ہے کیا
بدعت سے پاک شرک کا کھٹکا نہیں ذرا
عثمان طریق سنتِ خیرالوریٰ ہے کیا٭۳۹
دیوان چہارم:
نام پر حضرت کے کہتا ہے خدا صل علیٰ
مرحبا صل علیٰ اے مرحبا صل علیٰ
آسماں سے بھیجتے ہیں جب ملائک تک درود
تو بھی اے دل ورد رکھ صبح و مساصل علی
جب سنے نام محمد بھیج تو فوراً درود
اسمِ والا سے نہ کر ہرگز جد اصل علی٭۴۰
دیوان پنجم:
مصطفی درجہاں ہوے پیدا
شاہ آخر زماں ہوے پیدا
شکر صد شکر آج صل علی
سرور انس و جاں ہوے پیدا
نور سے روشنی جہاں میں ہوئی
شاہ کون و مکاں ہوے پیدا٭۴۱
وسیلہ نجات:
آستان مصطفی پر میں نے جب سر رکھ دیا
رحمت باری نے اپنا ہاتھ سر پر رکھ دیا
قدسیوں نے جب شبِ معراج دیکھا آپ کو
پاے اقدس پر سر تسلیم جھک کر رکھ دیا
آگیا وقت تلاوت روئے حضرت خیال
سامنے قرآں کے قرآں کس نے لاکر رکھ دیا٭۴۲
پابوسیٔ حضور کی دولت مجھے ملی
قائل ترا میں آج ہی دستِ دُعا ہوا
ایمان ملا نجات ملی فضل حق ملا
دربار فیض سے مجھے کیا کیا عطا ہوا٭۴۳
نعتیہ شاعری کے لوازمات میں نبی اکرم سے عشق و محبت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ آپ کی ذاتِ گرامی سے والہانہ محبت، عقیدت اور شیفتگی کے بغیر نعت نہیں لکھی جاسکتی۔ یہ لگائو اور وابستگی جس قدر پختہ اور راسخ ہوگی اسی قدر نعت میں کیف و سرور اور سوز و گداز کی کیفیت پیدا ہوگی۔ شاہانِ دکن کی نعتیہ شاعری کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کی نعت گوئی کا تخلیقی پس منظر اور محرکِ اساسی آقائے نامدار کی محبت و عقیدت ہے۔ آںحضرتﷺ کی ذات والا سے انھیں ایسی ہی عقیدت ہے جیسی عام مسلمانوں کو ہوتی ہے۔ آپ کی بارگاہ میں یہ سلاطین اسی طرح فدویت و فدائیت، مجبوری و بیکسی اور عجز و درماندگی کا اظہار کرتے ہیں جیسے عام نعت گو شعرا کرتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نعت کہتے وقت ان کے ذہنوں سے اپنا شاہانہ کروفر، درباری شان و شوکت، ملک و دولت اور شکوہ و سطوت مرخص ہوجاتا ہے اور وہ عام نعت گو شاعروں کی مانند پوری عقیدت و تعظیم کے ساتھ بارگاہِ رسالت میں گل ہائے نیاز نچھاور کرتے اور ہدیہ نعت و توصیف گزرانتے ہیں۔ وہ اپنی شاہی پر نہیں بلکہ آںحضرتﷺ سے نسبت غلامی پر ناز کرتے ہیں۔ شہنشاہِ کونین کے ان تاجدار غلاموں نے اپنی نعتوں میں آپ کی ذاتِ اقدس کے جن پہلوئوں کی عمومی طور پر توصیف و ستائش کا موضوع بنایا ہے وہ یہ ہیں:
مولودِ نبی، آپ کا وجہ تخلیق و کائنات ہونا، آپ کا نور من نور اللہ ہونا، آپ کا خاتم النّبیین اور رحمۃ للعالمین ہونا، آپ کے معجزات مثلاً شق القمر، شرف معراج، رحمت و شفاعت، تمنائے دیدار، صلوٰۃ و سلام اور اپنے مسائل و پریشانیوں کے سلسلے میں آںحضرتﷺ سے استغاثہ اور استمداد وغیرہ۔ آپ کی سیرت کے دیگر اہم پہلوئوں جیسے مقصد نبوت، پیام رسالت، تمدن و معاشرت پر آپ کے احسانات، قانون و آئین، عدل و انصاف، سیاست و ریاست اور اخلاق کی بابت آپ کی تعلیمات وغیرہ پر قدیم نعت گو شعرا کی طرح شاہانِ دکن نے بھی توجہ نہیں کی ہے۔ یہ موضوعات جدید نعتیہ شاعری کا امتیاز ہیں۔ شاہانِ دکن کی نعتیہ شاعری کے پس پردہ خیر جوئی، برکت طلبی اور حصولِ شفاعت کے محرکات کارفرما ہیں۔ ان سلاطین کی نعت گوئی کا انداز توصیفی ہے۔ فن نعت گوئی کو وسعت دینے اور اس کی روایت کے تسلسل کو برقرار رکھنے میں شاہانِ دکن کی نعتیہ شاعری بھی اپنی ایک تاریخ رکھتی ہے اور جامع مطالعہ و تحسین کی مستحق ہے۔٭۴۴
حوالے و حواشی
٭۱۔     کلام الملوک، مصنفہ میر سعادت علی رضوی، حیدرآباد۔ ۱۳۵۷ھ۔ ص۶ و نیز ص۱۳۔۱۰
٭۲۔    پروفیسر عبدالمجید صدیقی، مقدمہ تاریخ دکن، حیدرآباد۔ ۱۹۴۰ء۔ ص۶۹
٭۳۔    پروفیسر عبدالقادر سروری، اُردو کی ادبی تاریخ، حیدرآباد۔ ۱۹۶۸ء۔ ص۸۷
٭۴۔    بحوالہ ’’کتاب نورس‘‘ مرتبہ پروفیسر نذیر احمد طبع ثانی، بنگلور۔ ۱۹۹۸ء۔ ص۶۶۔۶۵
٭۵۔    سیّد مبارزالدین رفعت مرتب علی عادل شاہ ثانی شاہی، مصنف کلیات شاہی، حیدرآباد، ۱۹۶۲ء، مقدمہ ص۱۸
٭۶۔    مولوی عبدالحق، نصرتی، دہلی۔ ۱۹۸۸ء، ص۲۴۷
٭۷۔    ڈاکٹر ریاض مجید، اُردو میں نعت گوئی، لاہور۔ ۱۹۹۰ء، ص۱۸۶
٭۸۔    ایضاً و ڈاکٹر محمد اسماعیل آزاد فتح پوری، اُردو شاعری میں نعت، لکھنو ۱۹۹۲ء، ص۱۰۰
٭۹۔    ڈاکٹر زور، سلطان محمد قلی قطب شاہ، حیدرآباد۔ ۱۹۴۰ء، ص۱۶۰
٭۱۰۔   کلام الملوک۔ ص۶۰۔۵۹
٭۱۱۔    ایضاً۔ ص۶۰
٭۱۲۔   ایضاً۔ ص۱۱۱
٭۱۳     ایضاً۔ ص۷۴۔۷۳
٭۱۴۔   ڈاکٹر محمد علی اثر، مرتب دیوان عبداللہ قطب شاہ، حیدرآباد۔ ۲۰۰۰ء۔ مقدمہ ص۲۳
٭۱۵۔   ڈاکٹر جمیل جالبی، تاریخ ادب اُردو، جلد اوّل، دہلی ۱۹۷۷ء۔ ص۴۵۹
٭۱۶۔   دیوان عبداللہ قطب شاہ۔ ص۴۵
٭۱۷۔  ڈاکٹر محمد علی اثر۔ دکنی غزل کی نشوونما، حیدرآباد۔ ۱۹۸۶ء۔ ص۱۷۲
٭۱۸۔   بحوالہ محبوب الزمن تذکرہ شعرائے دکن، جلد اوّل۔ ص۵۳
٭۱۹۔   بحوالہ محبوب الزمن۔ جلد اوّل۔ ص۹۵
٭۲۰۔  ایضاً۔ جلد دوم۔ ص۶۵
٭۲۱۔   ڈاکٹر یوسف حسین خان، تاریخ دکن، حیدرآباد۔ ۱۹۴۴ء۔ ص۲۵۵۔ ناصر جنگ کے دوسرے تخلص آفتاب کا ذکر صرف ڈاکٹر یوسف حسین خان نے کیا ہے۔ ’دکن میں اُردو‘ (نصیر الدین ہاشمی) داستانِ ادب حیدرآباد (ڈاکٹر زور) اور تذکرۂ شعرائے دکن (عبدالجبار خاں صوفی ملکاپوری) میں اس کا ذکر نہیں ہے۔
٭۲۲۔  تذکرہ شعرائے دکن۔ جلد دوم۔ ص۱۱۰۴
٭۲۳۔ دیوان ناصر، مطبوعہ در مطبع رکاب سرکار بندگان عالی، پرانی حویلی حیدرآباد۔ ۱۳۰۱ھ۔ ص۹۷
٭۲۴۔ایضاً۔ ص۱۵۶
٭۲۵۔تذکرہ شعرائے دکن۔ جلد دوم۔ ص۱۱۰۷
٭۲۶۔ایضاً۔ ص۱۱۰۹
٭۲۷۔دیوان ناصر جنگ، دیوان سوم، حیدرآباد ۱۳۰۱ھ۔ ص۴۶۶
٭۲۸۔  ایضاً۔ ص۴۶۵
٭۲۹۔  ایضاً۔ ص ۴۰۵
٭۳۰۔مرزا افضل بیگ خان قاقشال مصنف ڈاکٹر حفیظ قتیل مرتب، تحفۃ الشعرا حیدرآباد۔ ۱۹۶۱ء۔ ص۸۶
٭۳۱۔   ڈاکٹر زور، داستان ادب، حیدرآباد۔ ۱۹۸۲ء۔ ص۲۵۳
٭۳۲۔بحوالہ مرقع سخن، مدیر عمومی ڈاکٹر زور، مضمون نگار سیّد محمد نقی رضوی، حیدرآباد۔ ۱۹۳۷ء
٭۳۳۔تذکرہ شعرائے دکن۔ جلد اول۔ ص۱۰۴
٭۳۴۔ایضاً۔ ص ۱۵۲
٭۳۵۔ایضاً۔ ص ۱۴۷
٭۳۶    ایضاً۔ ص ۱۲۴
٭۳۷۔دیوان آصف سابع، جلد اوّل، حیدرآباد۔ ۱۳۳۵ھ۔ ص۱
٭۳۸۔دیوان میر عثمان علی خاں آصف سابع، جلد دوم۔ حیدرآباد ۱۳۳۶ھ۔ ص۱
٭۳۹۔دیوان آصف سابع، جلد سوم، حیدرآباد ۱۳۳۶ھ۔ ص۱
٭۴۰۔  ایضاً۔ جلد چہارم، ص۱
٭۴۱۔   ایضاً۔ جلد پنجم، ص۱
٭۴۳۔بحوالہ ادبیات آصف سابع مرتبہ اختر واجدی، حیدرآباد۔ ص۲۵
٭۴۴۔ایضاً۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے